’گولن سے روابط‘: ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا سربراہ گرفتار
7 جون 2017ترکی کے شہر استنبول سے بدھ سات جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا ہے کہ ترکی میں اس تنظیم کے سربراہ تانیر کیلچ اور بائیس دیگر وکلاء کو پولیس نے مغربی ترکی کے شہر ازمیر سے منگل چھ جون کے روز گرفتار کیا۔
ایمنسٹی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ترک حکام نے تانیر کیلچ اور ان کے ساتھ حراست میں لیے گئے قریب دو درجن دیگر افراد پر الزام لگایا ہے کہ ان کے مبینہ طور پر فتح اللہ گولن کی تحریک کے ساتھ رابطے تھے۔
گولن ایک ایسے ترک مذہبی رہنما ہیں، جو امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انقرہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ برس جولائی میں ملکی مسلح افواج کے ایک حصے کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی جو ناکام کوشش کی گئی تھی، اس میں بھی فتح اللہ گولن ہی کا ہاتھ تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹھی نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ترک حکومت تانیر کیلچ اور ان کے ساتھ حراست میں لیے گئے دیگر بائیس وکلاء کو بھی بلا تاخیر رہا کرے اور ان پر عائد کردہ الزامات واپس لیے جائیں۔‘‘
سلیل شیٹھی نے کہا، ’’ترک حکومت جس طرح کی آزادیوں کو محدود کر دینے یا ان کی نفی کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، عین ویسی ہی کوششوں کے خلاف تانیر کیلچ نے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے پچھلے کئی برسوں کے دوران مسلسل جدوجہد کی ہے۔‘‘
شیٹھی نے مزید کہا کہ جس طرح کیلچ اور قریب دو درجن دیگر وکلاء کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے دوران ترک حکام کس طرح اندھا دھند پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا کہ اس کی رائے میں تانیر کیلچ کی گرفتاری کی وجہ ان کی وہ جدوجہد نہیں ہو سکتی، جو وہ ترکی میں 2014ء سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ملکی سربراہ کے طور پر اب تک کرتے آئے ہیں۔
کئی ترک فوجی اہلکاروں، اہل خانہ کو ’جرمنی نے پناہ دے دی‘
ترکی: ناکام بغاوت، ایردوآن اور ’عدلیہ کی صفائی‘
جرمنی فوجی بغاوت کے منصوبہ سازوں کی حمایت کر رہا ہے، ترکی
انقرہ حکومت کا الزام ہے کہ پچھلے سال فوجی بغاوت کی ناکام کوشش فتح اللہ گولن کی ہدایت پر کی گئی تھی، جس کا مقصد صدر رجب طیب ایردوآن کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔
اس کے برعکس فتح اللہ گولن، جو 1999ء سے امریکی ریاست پینسلوانیا میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنے خلاف اس ناکام فوجی بغاوت سے متعلق جملہ الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ترک سیاسی نظام میں سلطنت عثمانیہ کے بعد کی سب سے بڑی تبدیلی
یونان بغاوت کے منصوبہ سازوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے، ترکی
ترک حکام ایمرجنسی کا ناجائزہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، ایچ آر ڈبلیو
ترکی میں گزشتہ جولائی کی اس ناکام بغاوت کے بعد سے حکومت اب تک ایک لاکھ سے ز ائد سرکاری ملازمین کو یا تو ان کی نوکریوں سے برخاست کر چکی ہے یا انہیں معطل کیا جا چکا ہے جبکہ ہزارہا افراد گرفتار بھی کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی ناکام بغاوت کے چند روز بعد ملک میں ہنگامی حالت بھی نافذ کر دی گئی تھی، جس کی مدت میں اب تک تین مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے۔
ان اقدامات اور سیاسی مخالفین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی وجہ سے انسانی اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کئی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف انقرہ حکومت پر شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔