1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گولڈن ٹيمپل حملے ميں کردار ’مشورے‘ تک محدود تھا، برطانيہ

عاصم سلیم5 فروری 2014

برطانوی وزير خارجہ نے ملکی پارليمان کو بتايا ہے کہ 1984ء ميں بھارتی شہر امرتسر کے گولڈن ٹيمپل پر کيے جانے والے حملے ميں برطانوی فوج کا کردار مشاورت تک محدود تھا اور ملٹری کی جانب سے ديے گئے مشوروں کے اثرات محدود تھے۔

تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق برطانيہ نے يہ تسليم کر ليا ہے کہ 1984ء ميں کيے جانے والے اِس حملے سے قبل بھارتی حکومت کو مشورے ديے گئے تھے۔ تاہم وزير خارجہ وليم ہيگ نے چار فروری کے روز پارليمان سے اپنے خطاب ميں کہا کہ برطانوی ملٹری کی تجاويز صرف مشاورت تک ہی محدود تھی اور آپريشن پر اِس کا اثر کچھ زيادہ نہيں تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگتصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images

ہيگ کے بقول برطانوی اہلکار نے فروری 1984ء ميں بھارت کا دورہ کيا تھا، جِس کے بعد ’صورتحال اور منصوبہ بندی‘ ميں کافی تبديلی آئی۔ بعد ازاں فوجی کارروائی پانچ تا سات جون تک جاری رہی۔

برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کمرون نے ايک ويڈيو پيغام کے ذريعے برطانيہ ميں مقيم سکھ برداری سے مخاطب ہوتے ہوئے بتايا، ’’صرف ايک فوجی افسر نے کچھ مشورہ ديا تھا ليکن يہاں زيادہ اہم بات يہ ہے کہ اِس مشورے پر عمل نہيں کيا گيا تھا اور يہ محض ايک انفرادی واقعہ تھا۔‘‘

واضح رہے کہ نيوز ايجنسی اے پی کے مطابق سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ جنگجوؤں نے کئی ماہ سے گولڈن ٹيمپل ميں پناہ لے رکھی تھی اور جب بھارتی فوج نے اُنہيں اِس مذہبی مقام سے نکالنے کے ليے کارروائی کی، تو فوج کو اپنے ابتدائی اندازوں سے کہيں زيادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ قريب تين دن تک جاری رہے والے مسلح تصادم کے نتيجے ميں بھارتی حکومت کے مطابق 575 جبکہ ديگر رپورٹوں کے مطابق قريب تين ہزار افراد مارے گئے تھے۔

اِس واقعے کے کچھ ہی مہينوں بعد کيے جانے والے انتقامی حملے ميں اُس وقت کے بھارتی وزير اعظم اندرا گاندھی کو ہلاک کر ديا گيا تھا، جِس کے بعد ملک فسادات کا شکار ہو گيا اور کئی سو مزيد افراد ہلاک ہوئے۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر ميں جب سکھوں کی بغاوت کا خاتمہ کيا گيا، تو اُس وقت تک بغاوت اٹھارہ ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی تھی۔

جون 1984ء ميں کيا جانے والا يہ عسکری آپريشن بھارتی تاريخ کے خونريز ترين واقعات ميں شامل کيا جاتا ہے۔تصویر: dpa

برطانيہ کی جانب سے اِس واقعے کی تحقيقات کا حکم اُس وقت ديا گيا جب ابھی حال ہی ميں منظر عام پر آنے والی خفيہ دستاويزات سے ايسے اشارے ملے کہ برطانيہ کی اسپيشل فورسز کے کسی افسر نے اِس بارے ميں بھارتی فوج کو مشورہ ديا تھا۔ منگل کے روز اِس تحقيقاتی رپورٹ کے نتائج سے يہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اُس وقت کی برطانوی وزير اعظم مارگريٹ تھيچر نے ايک مشير کی روانگی کی منظوری دی تھی۔

کئی اندازوں کے مطابق اِس آپريشن ميں خواہ برطانيہ کا کردار کتنا ہی محدود کيوں نہ ہو، تاريخ کے اِس تاريک باب ميں کسی بھی قسم کے کردار کا اعتراف کئی لوگوں کے ليے مايوسی کا سبب بن سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں