گولڈن پاسپورٹ والا ملک: یورپ کے ویزا فری سفر کی سہولت معطل
12 جنوری 2022
یورپی یونین نے اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ کرتے ہوئے گولڈن پاسپورٹ والے ایک ملک کے شہریوں کے لیے یورپ کے ویزا فری سفر کی سہولت کی معطلی کی تجویز دے دی ہے۔ یہ ملک بہت امیر غیر ملکیوں کو اپنے ’گولڈن پاسپورٹ‘ جاری کر دیتا ہے۔
اشتہار
برسلز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ستائیس رکنی یورپی یونین کے انتظامی بازو یورپی کمیشن نے یہ باقاعدہ تجویز پیش کر دی ہے کہ وانُوآٹو کے لیے اس بلاک کے ویزے کے بغیر آزادانہ سفر کی سہولت اب معطل کر دی جائے۔
وانُوآٹو (Vanuatu) جنوبی بحرالکاہل کی مجموعہ جزائر پر مشتمل ایک ریاست ہے، جس کے شہری جب چاہیں ویزے کے بغیر یورپی یونین میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس چھوٹے سے ملک نے اپنے ہاں ملکی شہریت کے حصول کی ایک اسکیم شروع کر رکھی ہے، جس پر یورپی یونین کو شدید اعتراض ہے۔
کوئی پاسپورٹ گولڈن کیسے؟
اس اسکیم کے ذریعے کوئی بھی غیر ملکی اس ملک میں کم از کم ایک لاکھ تیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر سرمایہ کاری کر کے اس ملک کی شہریت اور یوں اس کا پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح حاصل کیے گئے پاسپورٹوں کو ان کی وجہ سے ملنے والی سفری سہولتوں کے باعث ’گولڈن پاسپورٹ‘ کہا جاتا ہے۔
یورپی کمیشن نے اپنی تجویز میں کہا ہے کہ یورپی یونین میں ویزے کے بغیر داخلے کی سہولت کے حامل کسی ملک کی طرف سے اپنے ہاں شہری حقوق کی وہاں سرمایہ کاری کے بدلے اس طرح تقسیم سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سکیورٹی کے خطرات کے علاوہ منی لانڈرنگ کے امکانات بھی شامل ہیں۔
اشتہار
رکن ممالک کی منظوری ضروری
یوری کمیشن کی اس تجویز پر اب اس بلاک کی رکن ریاستوں کو اپنی رائے دینا ہے۔ اگر اس تجویز کی حمایت کر دی گئی، تو یہ پہلا موقع ہو گا کہ یونین 'گولڈن پاسپورٹ‘ والے کسی ملک کے شہریوں کے اپنے ہاں ویزا فری سفر پر پابندی لگا دے گی۔
اس فیصلے کا ایک اور ضمنی نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ اگر یونین کی رکن ریاستوں نے وانُوآٹو کے لیے ویزا فری سفر کی سہولت معطل کر دی، تو متاثر کئی ایسے مشرقی یورپی ملک بھی ہوں گے، جنہوں نے بھی اپنے ہاں اسی طرح کی اسکیمیں شروع کر رکھی ہیں۔
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اپنے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مقامی شہریت کی اسکیمیں شروع کرنے والی دنیا کی بہت سی ریاستوں میں بحیرہ کریبیین کے چند ممالک، بحرالکاہل کی متعدد جزیرہ ریاستیں اور مشرقی یورپ کے مونٹی نیگرو، البانیہ اور مولدووا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔
یونین کے رکن ممالک کی شہریت کی اسکیمیں
اپنے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مقامی شہریت دینے کی کئی اسکیمیں خود یورپی یونین کے رکن کئی ممالک نے بھی شروع کر رکھی ہیں۔ ان میں سے بہت سے ممالک کی ایسی اسکیموں کو برسلز کی طرف سے یوری قواعد و ضوابط سے ہم آہنگ قرار دیا جاتا ہے۔
یونین کی رکن جزیرہ ریاستوںقبرص اور مالٹا نے بھی اپنے ہاں گولڈن پاسپورٹ کی اسکیمیں شروع تو کر رکھی ہیں تاہم یورپی یونین انہیں اپنے ضابطوں سے ہم آہنگ نہیں سمجھتی۔ یہی وجہ ہے کہ وانُوآٹو سے متعلق یورپی کمیشن کی تجویز کے نتائج کے قبرص اور مالٹا جیسے رکن ممالک خاص طور پر منتظر رہیں گے۔
م م / ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔