سٹینفورڈ کے چند کمروں میں بنائی گئی کمپنی گوگل، انٹرنیٹ کی دنیا میں کامیابی کی علامت ہے۔ گوگل اب بیس برس کا ہو چکا ہے، مگر ایک طرف مقابلہ، اشتہارات سے آمدن اور پرائیوسی جیسی چیلنجز اس کے سامنے ہیں۔
اشتہار
لیری پیج، یونیورسٹی آف مشی گن میں پڑھتے تھے، وہ سٹینفورڈ جیسی معتبر جامعہ میں داخلہ لینے کے لیےجب اس یونیورسٹی میں پہنچے تو انہیں کمپیوٹر سائنس کے ایک طالب علم سیرگئی برِین نے جامعہ کے مختلف شعبے دکھائے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے اتنے مختلف افراد تھے کہ ہر بات میں ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے تھے اور بحث ہو رہی تھی۔ تاہم صرف ایک برس بعد یہ دونوں مل کر کام کر رہے تھے اور ایک انٹرنیٹ سرچ انجن بنا رہے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے ورلڈ وائڈ ویب کے لیے بیک رُب بنایا، جو تلاش کرنے پر انٹرنیٹ پر موجود دستاویزات ڈھونڈ نکالتا تھا۔
اس سرچ انجن کو جلد ہی گوگل کا نام دے دیا گیا۔ گوگل اعداد کی ایسی اصطلاح ہے، جو ایک کے ساتھ سو زیرو لگانے سے وجود میں آتی ہے۔ گوگل کو جلد ہی امریکا کی سیلیکون ویلی کے سرمایہ کاروں کی توجہ مل گئی۔ ان میں سن مائیکرو سِسٹمز کے شریک جرمن بانی اینڈی پیشٹولزہائم بھی تھے، جنہوں نے اگست 1998ء میں گوگل میں ایک لاکھ ڈالر سرمایہ کاری کی۔ اس طرح گوگل انکارپوریشن کمپنی وجود میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی پیج اور بِرن چھوٹے سے کمرے سے ایک گیراج میں منتقل ہوئے، جسے گوگل کا پہلا دفتر کہا جاتا ہے۔ یہ گیراج سوزان وجکیکی کا تھا، جو اب گوگل کے ادارے یوٹیوب کی موجودہ چیف ایگزیکٹیو ہیں۔
اس انجن کے ذریعے اربوں سرچز کی گئیں اور گوگل کو بعد میں ایلفابیٹ کمپنی کا ایک یونٹ بنا دیا گیا۔ یہ کمپنی مرکزی سرچ اور اشتہاری کاروبار کو دیگر کاروباروں سے الگ کرتی ہے۔ اسے انٹرنیٹ کی تاریخ کی کامیاب ترین کمپنیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
اس کمپنی نے گزشتہ بیس برسوں میں جو سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، وہ ’مونیٹائزیشن سرچ‘ ہے۔ گلوبل ڈیٹا ماہر ایوی گرین گارٹ کے مطابق اس کمپنی نے انٹرنیٹ سرچز کو الیگوریتھمز کے ذریعے اشتہاری کاروباری میں تبدیل کر دیا اور اب بھی اس کمپنی کو ہونے والی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ اسی طریقے سے حاصل ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
سرچ ایڈورٹائنزنگ کے عالمی انٹرنیٹ کاروبار سے حاصل ہونے والے سرمایے کا ستر فیصد گوگل کے پاس جاتا ہے اور اس کاروبارہ سے گوگل کو ہونے والی آمدنی اس کی مجموعی آمدنی کا قریب نوے فیصد ہے۔