1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گُدڑی میں لعل: فلسطینی نوجوان ’عرب آئیڈل‘ کا فاتح

Ali Amjad23 جون 2013

عشروں سے مایوسی اور پژمردگی کے شکار فلسطینی باشندوں کی تاریک رندگی میں روشنی کی ایک کرن اور خوشی کی ایک لہر کا سبب بننے والے 23 سالہ گلوکار محمد عساف نے عرب آئیڈل کا ٹائٹل جیت لیا ہے۔

تصویر: Reuters

اس سال مارچ کے وسط سے مشرق وسطیٰ کے کروڑوں باشندوں کی نگاہیں بین العرب گائیگی کے اس مقابلے پر جمی ہوئی تھیں اور کسی کے وہم  و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس اعزاز کو حاصل کرنے والے کا تعلق غزہ جیسے پسماندگی اور محرومی کے شکار علاقے سے ہو گا۔

گزشتہ روز بیروت میں منعقد ہونے والے فائنل مقابلے کو لاکھوں افراد ٹیلی وژن پر لائیو دیکھ رہے تھے۔ امریکا کے ایک مقبول شو ’پوپ آئیڈل‘ کی طرز کے اس پروگرام کے پریزنٹر نے جس لمحے ’عرب آئیڈل‘ ٹائیٹل کے مقابلے میں محمد عساف کی فتح کا اعلان کیا تو اکثر عرب باشندوں کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

عساف کی اس تابناک کامیابی پر غرب اردن اور غزہ پٹی میں خوشی کی ایک ایسی لہر دوڑ گئی، جو اس سے قبل شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منانے والے فلسطینی باشندوں میں اس موقع پر ایک انوکھا اتحاد دیکھنے میں آ رہا تھا، جو اکثر کم ہی نظر آ تا ہے۔

محمد عساف قلسطینی عوام کے دلوں کی آواز ہےتصویر: DW

عرب آئیڈل محمد عساف نے اپنے اعزاز اور کامیابی کو فلسطینی عوام کے نام وقف کرنے کا اعلان کیا ہے، جو 60 سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی قبضے میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے محمد عساف کے عرب آئیڈل کے انعام کے اعلان کے فوراً بعد ہی اُسے ’قومی خیرسگالی کا ایک سفیر‘ قرار دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین نے اُسے UNRWA کا ایک نوجوان سفیر قرار دیا ہے۔

جس وقت عساف کے لیے عرب آئیڈل کے ٹائٹل کا اعلان کیا گیا، اُس وقت روایتی فلسطینی لباس میں ملبوس اُس کی والدہ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔ اُن کے شانے سیاہ، سبز، سفید اور سرخ رنگ والے فلسطینی پرچم سے ڈھکے ہوئے تھے۔ عرب آئیڈل انعام کا فیصلہ کرنے والی جیوری میں شامل ججوں میں سے ایک نے عساف کو ’غزہ سے تعلق رکھنے والا بہترین راکٹ‘ قرار دیا، تاہم جنگ کا نہیں بلکہ امن کا راکٹ۔

اُدھر غرب اُردن کے دارالحکومت رملہ کی سڑکیں اتوار کی صبح تک جشن منانے والے فلسطینی باشندوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ کچھ یہی منظر غزہ پٹی کے علاقوں میں بھی نظر آ رہا تھا۔

غزہ کے فلسطینی نوجوان تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی کو برتنا چاہتے ہیںتصویر: DW/S. Al farra

الحاق شدہ مشرقی یروشلم میں بھی عساف کی کامیابی کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں تاہم اس علاقے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے مابین تصادم نے ماحول کو دوبارہ کشیدہ کر دیا۔ کئی فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی پولیس نے گرفتار کر لیا۔

لیبیا کے شہر مصراتہ میں پیدا ہونے والے محمد عساف کا بچپن اور نوجوانی کا دور جنوبی غزہ کے خان یونس مہاجر کیمپ میں گزرا۔ یہ علاقہ دنیا کا پسماندہ ترین اور سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ مانا جاتا ہے۔ 2006ء سے اسرائیل نے اس علاقے کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

غزہ کی اسلام پسند تنظیم حماس کے رہنما اس نوعیت کے شوز کی مخالفت کرتے ہیں۔ عرب آئیڈل جیسے پروگراموں کو یہ عناصر غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔ تاہم حماس نے اس انعام کے لیے مقابلے کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ دریں اثناء UNRWA کے چیف فیلیپو گرانڈی نے عساف کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’عساف کی کامیابی میں تمام فلسطینی شریک ہیں۔ محمد عساف کی موسیقی اور گلوکاری ایک عالمگیر زبان کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ہم سب سے مخاطب ہوتی ہے۔ یہ کس قدر خوش آئند بات ہے کہ ایک فلسطینی مہاجر کیمپ ہم سب کو قریب لانے کا سبب بنا ہے‘۔

اُدھر ٹیوٹر کے ذریعے اسرائیل کے ایک فوجی عرب ترجمان Avichai Adraee نے بھی عساف کو فتح کی مبارکباد دی ہے۔ اس بیان میں کہا گیا،’عساف تمہیں اس اعزاز کے جیتنے پر بہت مبارک ہو۔ ہماری تمنا ہے کہ حماس غزہ پٹی کے باشندوں کو خوش ہونے کا موقع دے نہ کہ ان کی خوشیوں کو ہر طرح سے پامال کرتی رہے، جیسا کہ وہ ایک عرصے سے کرتی آئی ہے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک معروف اسرائیلی روزنامے ہارٹس نے بھی محمد عساف کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے،’ ایک فلسطینی ہیرو پیدا ہو گیا ہے‘۔

km/aa ( AFP)        

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں