گڈ فرائیڈے: فلپائن میں کئی مسیحی عقیدتاﹰ مصلوب ہو گئے
25 مارچ 2016ایسٹر کے موقع پر فلپائن میں انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گڈ فرائیڈے کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں میں وہی منظر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیے جانے کے موقع پر دیکھا گیا تھا۔ فلپائن کے شہری خود کو مصلوب کروا کر یسوع مسیح سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ مسیحی عقیدے کے مطابق اس روز حضرت عیسٰی کو یروشلم کی مختلف گلیوں میں سے گزارا گیا تھا۔ انہیں دھکے دیے گئے، انتہائی ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا اور آخر میں انہیں مصلوب کر دیا گیا تھا۔ اسی لیے گڈ فرائیڈے کو ’مصائب کے جمعے‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
فلپائن کے سان خوان نامی گاؤں کے ایک مچھیرے سلواڈور نے یسوع مسیح کی یاد میں خود کو مصلوب کروانے کے لیے پیش کیا۔ اے ایف پی کو اس نے بتایا، ’’میں اس طرح خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے شفایاب کیا۔‘‘
اس کے بعد سلواڈور کو اسی طرح سے گھسیٹا گیا جیسا کہ مسیحیوں کے نزدیک یسوع مسیح کے ساتھ کیا گیا تھا۔ وہ 2006ء سے ہر سال گڈ فرائیڈے کے موقع پر خود کو لکڑی کی ایک صلیب پر آہنی کیلوں سے مصلوب کرواتا ہے۔ ’’مجھے علم ہے کہ آپ یقین نہیں کریں گے کہ خدا نے اعصاب پر قابو پانے میں میری مدد کی۔‘‘
اس دوران عقیدت مندوں کے دونوں ہاتھوں اور پیروں میں کیلیں ٹھونکی جاتی ہیں، جو لکڑی کی صلیب میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ تاہم اس عمل کے چند منٹوں کے بعد ہی عقیدت مندوں کو صلیبوں سے اتار کر ان کے زخموں کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے۔ سلواڈور کی طرح ریڑھی لگانے والے ساٹھ سالہ ایلکس داراننگ نے بھی خود کو مصلوب کروایا۔ اس کے بقول، ’’یہ زخم بہت تیزی سے بھرتے ہیں اور میں عام طور پر دو دن میں مکمل طور پر شفایاب ہو جاتا ہوں۔‘‘
کیتھولک کلیسا عقیدت مندوں کی جانب سے خود کو مصلوب کروانے کے عمل کی ممانعت کرتا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اسے دیکھنے کے لیے فلپائن پہنچتی ہے۔ ایک سیاح بینجی پاسکوگوئن کے مطابق، ’’مصلوب کیے جانے کے اس عمل کے علامتی معنی ہیں۔ یقیناً اس سے میرا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ میں اگلے برس بھی یہ دیکھنے کے لیے آؤں گا۔‘‘ اس موقع پر وہاں بڑی تعداد میں موجود سیاحوں تک مصلوب کیے جانے کے یہ مناظر براہ راست پہنچانے کے لیے بڑی بڑی اسکرینیں بھی نصب کی جاتی ہیں۔