1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: گھروں میں محنت کرنے والی بچیوں پرجان لیوا تشدد

18 اگست 2023

رواں ہفتے سندھ کے شہر رانی پور میں ایک پیر کی حویلی میں ایک کم سن بچی کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کا معاملہ منظرعام پرآچکا ہے۔ یہ اور آئے دن ہونے والے ایسے ہی دیگر واقعات پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

Moderne Sklaverei
تصویر: KAFA/Violence & Exploitation/Matthew Casse

گزشتہ روزاسلام آباد پولیس نے محنت کش بچی عندلیب فاطمہ پرتشدد کے الزام میں ایک خاتون کو گرفتارکرکے عدالت میں پیش کیا، ملزمہ کو جوڈیشل کسٹڈی میں دے دیا گیا ہے۔

عدم برداشت اور پرتشدد رجحانات

معمولی تنازعات پرقتل کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے میں عدم برداشت اورتشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا سبب ہیں۔ دوسری جانب گھروں میں ڈومیسٹک وائلنس میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ہرجگہ نظرآرہی ہے اورکمزورطبقہ اس کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین اوربچیاں اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہونے والا طبقہ ہے۔ انہیں ناصرف گالم گلوچ اورتضحیک آمیز رویوں کا شکار بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں جسمانی طورپربھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اوریہ قدرے معمول سمجھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے رہنما اورقانونی ماہر ایڈوکیٹ ضیا اعوان کا ڈوئچے ویلے سے گفتگومیں کہنا تھا کہ گھریلو ملازمین کو ذہنی اورجسمانیتشدد اور جنسی حراسانی کا شکار بنانے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں تاہم بیشترواقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ متاثرہ افراد کو ڈرادھمکا کرخاموش کرادیا جاتا ہے۔ تشدد سے کسی بچی کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آنے پر ہی ان واقعات کی سنگینی کا احساس کیا جاتا ہے جو معاشرے کی اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔

قلم، کتاب اور کھلونوں کی جگہ اوزار، چائلڈ لیبر بچپن چھین لیتی ہے

04:05

This browser does not support the video element.

گھروں میں کام کرنے والی محنت کش بچیاں

عموماً شہروں میں اشرافیہ کے گھروں میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کم سنلڑکیوں  کو ملازمت پر رکھنے کا رجحان ہے اوربڑی عمرکی خواتین کی بجائے چھوٹی لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان بچیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا نہ ہونا ہے۔ ایسی بچیاں نہ تو کسی بھی رویے کی شکایت کرتی ہیں اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی جوابی ردعمل کا امکان ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان سے بچوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ گھرکے اوربھی کام لیے جاتے ہیں۔ گھرمیں ہی مستقل رکھی جانے والی ان بچیوں کے کام کے اوقات مقررنہیں ہوتے جس کی وجہ سے انہیں آرام کرنے کے لیے مناسب وقت بھی نہیں ملتا۔

دوہزار اٹھارہ میں قصور میں نشدد کا نشانہ بن کر ہلاک ہونے والی آٹھ سالہ بچی کا جنازہتصویر: Getty Images/AFP/G. Ahmed

 

محنت کش بچیوں میں احساس عدم تحفظ

ماہرنفسیات انیلہ امبرملک نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محنت کش بچیوں کی اپنے گھروالوں سے کئی کئی ماہ ملاقات نہیں ہوپاتی اوراسے چھٹی بھی نہیں ملتی کہ وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ کچھ دن گزار سکے۔ ایسی صورتحال میں کئی کئی ماہ بچی کسی اپنے کی عدم موجودگی کے باعث عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوچکی ہوتی ہے اور ماں باپ سے ملاقات کے باوجود بھی وہ اپنے اوپرہونے والے ظلم وزیادتی کی شکایت نہیں کرپاتی کہ اگرماں باپ نے کوئی بات یا شکایت کردی تو اس کا خمیازہ اسے بعد میں بھگتنا پڑے گا۔ ایسی بچیاں عموما خود کو غلام تصورکرنے لگتی ہیں اورشعورنہ ہونے کے باعث انہیں اپنے حقوق کا علم نہیں ہوتا۔

بچیوں پرتشدد کرنے والی خواتین

ماہرنفسیات انیلہ امبرملک کا کہنا تھا کہ محنت کش بچیوں پرتشدد میں گھر کی خواتین ہی ملوث ہیں اوراس رجحان کے کئی اسباب ہیں۔ عموماً اشرافیہ اورپڑھے لکھے گھرانوں میں خواتین کو وہ مقام حاصل نہیں۔ کہیں گھریلوتشدد کے مسائل ہیں تو کہیں مساوی حقوق اوربرابری کے برتاؤ کا مسئلہ ایسے میں خواتین فرسٹریشن کا شکار ہوجاتی ہیں اور وہ فرسٹریشن یا تو ان کی اپنی اولاد پر پٹائی اورڈانٹ ڈپٹ کی صورت میں نکلتی ہے نہیں تو پھر اس کا شکار گھرمیں کام کرنے والی کم سن بچیاں ہوتی ہیں جنہیں ذہنی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے

والدین کی لاعلمی یا لاپرواہی

ایڈووکیٹ ضیا اعوان نے بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے لیے والدین کو بھی قصوارقراردیتے ہوئے کہا کہ ان کواحساس کیسے دلائیں کہ آپ جو کررہے ہیں وہ غلط ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کے والدین عموماً کم ہی ملنے آتے ہیں بعض واقعات میں صرف تنخواہ لینے آنے والے باپ کو دروازے سے ہی رخصت کردیا جاتا ہے یہ کہہ کرکہ اس کی بچی ابھی بازارگئی ہے۔ والدین اپنی بیٹی کی تنخواہ تو وصول کرلیتے ہیں لیکن وہ کس حال میں ہے اورکیسی ہے یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے یا پھر انہیں اس نام نہاد پڑھی لکھی فیملی پر بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ اتنے پیسے والے ہیں تو ہمارے بچے کواچھا کھلاتے پلاتے ہونگے اوراس کی اچھی دیکھ بھال ہوتی ہوگی ۔ ایسی ہی ایک لاچار ماں شمیم نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ اس نے بھی بچپن سے اسی طرح گھروں میں کام کیا حالات سے مجبورہوکر اپنی بچی کو جہاں رکھا وہ پہلے تو بہت اچھے سے رکھتے تھے پھرانہوں نے تشدد کرنا شروع کردیا اورمکان بدل لیا جس کے بعد بچی کو بازیاب کرانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 

اسلام آباد میں تشدد کی شکار لڑکیوں اور خواتین کی مدد کے لیے قائم رپورٹنگ رومتصویر: DW/I. Jabbeen

 

کیا مسئلے کا حل شیلٹرز اوروظائف کی تقسیم ہی ہے؟

متاثرہ بچی کی ماں شمیم کا کہنا تھا کہ خراب معاشی صورتحال میں نوبچوں کی کفالت بہت مشکل ہے اسی لیے مجبوراً بیٹی کوگھرپرکام کرنے کے لیے رکھوایا تھا۔ سماجی کارکن شہزاد رائے نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی سرپرستی میں ایسے بچوں کے لیے شیلٹرز قائم کیے جائیں اورانہیں جبری مشقت کی بجائے تعلیم اورہنرکے زیور سے آراستہ کرکے معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جاسکتا ہے۔ ایڈووکیٹ ضیا اعوان نے بھی ایسی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس بیت المال اوربینظیرانکم سپورٹ جیسے پروگرام ہیں جن کے تحت بچوں کو شیلٹرز فراہم کیے جاسکتے ہیں یہ انہیں گھرپروظیفہ مقرر کرکےجبری مشقت سے بچایا جاسکتا ہے۔

بچے پيٹ پالنے کے ليے استعمال شدہ آئل فروخت کرنے پر مجبور

04:17

This browser does not support the video element.

بچوں پرتشدد کی روک تھام میں ادارے کیوں ناکام

سماجی رہنما اور قانونی ماہر ایڈووکیٹ ضیا اعوان کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ کم سن محنت کش بچیوں سے مشقت لینا غلامی کی مختلف شکلوں میں سے ایک ہے اوراس کے خلاف لڑنے کے لیے گورنمنٹ کا متحرک ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ''پچیس تیس جو انسٹی ٹیوشنز بنے ہوئے ہیں، کوئی چائیلد رائٹس، کا کوئی ہیومن رائٹس کا کوئی ویمن رائٹس، کوئی کمیشن یہ سب کس کام کے ہیں، حکومت کو ایک ہی بااختیار ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔‘‘

رفعت سعید

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں