1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھریلو تشدد سے مرد بھی بچ سکتے ہیں

23 اپریل 2020

گھر سب کے لیے محفوظ ہونا چاہیے لیکن کورونا وائرس کے بحران اور مسلسل ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے گھریلو تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جرمنی میں اب مردوں کے لیے ملک گیر ہیلپ لائن قائم کر دی گئی ہے۔

Deutschland | häusliche Gewalt | Symbolfoto
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May

کورونا وائرس کے بحران کے دوران زیادہ تر خواتین اور بچے ہی گھریلو تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن جرمنی میں مردوں کو بھی گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وجہ سے جرمنی کے دواہم صوبائی ریاستوں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور بائرن نے مل کر متاثرہ مردوں کے لیے ملک گیر ٹیلیفون ہیلپ لائن کا آغاز کر دیا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جرمنی میں مردوں کے لیے ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے۔

تصویر: picture-alliance/F. May

ایک بیان کے مطابق متاثرہ مرد ایک ٹیلی فون نمبر پر مفت کال کر سکیں گے اور ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ مثالیں دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اگر کسی مرد کو گھریلو یا جنسی تشدد کا سامنا ہے یا اس کی اسٹاکنگ کی جا رہی ہے یا جبری شادی کا مسئلہ ہے، وہ فوراﹰ مدد کے لیے کال کر سکتا ہے۔

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی وزارت برائے مقامی امور و مساوی مواقع اور بائرن کی خاندانی وسماجی امور کی وزارت نے کہا کہ جس طرح ریاستوں نے مشترکہ طور پر خواتین کے خلاف تشددکا مقابلہ کیا ہے بالکل اسی طرح ہیلپ فون کے ذریعے بھی مردوں کے خلاف تشدد سے نمٹا جائے گا۔

یہی نہیں بلکہ آئندہ ان صوبوں میں ایسے 'محفوظ گھر‘ بھی قائم کیے جائیں گے، جہاں گھریلو زندگی میں تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کو رہائش اختیار کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس بارے میں ان دونوں جرمن صوبوں کے علاقائی حکومتی اہلکاروں کی طرف سے بتایا گیا کہ اب بالآخر 'اس تشدد کو نظر آنا چاہیے اور اس پر پردہ پوشی کے لیے کھڑی کی گئی دیواریں گرائی جانا چاہییں‘۔

تصویر: picture-alliance/dpa/F. May

اس حوالے سے جرمنی میں انسداد جرائم کے محکمے کے اعدد و شمار بھی پیش کیے گئے ہیں، جن کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ میں اپنی شریک حیات کے ہاتھوں جنسی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بننے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ سن دو ہزار سترہ میں تقریباﹰ چوبیس ہزار مردوں نے گھریلو تشدد کی شکایات درج کروائیں۔ یہ شرح گھریلو تشدد کی مجموعی شکایات کا سترہ اعشاریہ نو فیصد بنتی ہے جبکہ دو ہزار اٹھارہ میں یہ بڑھ کر اٹھارہ اعشاریہ سات فیصد ہو گئی تھی۔

ماہرین کے مطابق خواتین کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے مردوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے کیوں کہ مرد شرمندگی کی وجہ سے ایسے تشدد کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ حکام نے ٹیلی فون ہیلپ لائن کے ساتھ ساتھ متاثرہ مردوں کی آن لائن مشاورت کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہے۔

جرمنی میں وزارت برائے خاندانی امور کی ترجمان فرانسسکا گیفی کا کہنا ہے،'' کورونا بحران کی وجہ سے لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بچوں کے اسکول بند ہیں جبکہ ملازمت پیشہ افراد کو دفتری معاملات بھی گھروں سے ہی نمٹانا پڑ رہے ہیں۔ ایسے میں سبھی چھوٹے گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں اور خاندانوں میں اسٹریس لیول بڑھ گیا ہے۔‘‘

جرمنی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سرکاری سطح پر یہ کوششیں اب ماضی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو چکی ہیں کہ صرف مردوں کی طرف سے تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو ہی نہیں بلکہ ان مردوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، جو ازدواجی زندگی میں اپنی ساتھی خواتین کی طرف سے مار پیٹ اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

بھارت میں ’ازدواجی جنسی زیادتی‘ ایک بڑا مسئلہ

03:02

This browser does not support the video element.

ا ا /ع ا (کے این اے،اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں