گھر بیٹھے بزرگ نے سمندر میں چھ سو مہاجرین کو کیسے بچایا؟
شمشیر حیدر31 مارچ 2016
اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایک چھیاسٹھ سالہ بزرگ شہری کی وجہ سے چھ سو کے قریب تارکین وطن سمندر میں ڈوبنے سے بچ گئے۔ یہ افراد کشتیوں کے ذریعے لیبیا سے اطالوی ساحلوں کی طرف سفر پر تھے۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جمعرات اکتیس مارچ کو ملنے رپورٹوں کے مطابق ایک بزرگ اطالوی شہری کو آج ہی سیٹلائٹ فون سے ایک کال موصول ہوئی تھی۔ ابتدا میں اس نے سمجھا کہ یہ کوئی رانگ کال تھی لیکن دراصل یہ بحیرہ روم میں سفر کرتے ہوئے تارکین وطن کی جانب سے کی گئی ایک کال تھی جس میں وہ مدد طلب کر رہے تھے۔
ایک مقامی اخبار کے ساتھ گفتگو میں اٹلی کے اس بزرگ شہری نے بتایا، ’’مجھے ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا، فون کرنے والا شخص انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں بات کر رہا تھا۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ علی الصبح مجھ سے کیا چاہ رہا ہے؟‘‘
بحیرہ روم کے راستے لیبیا سے اٹلی کی جانب محو سفر یہ تارکین وطن کھلے پانیوں میں تھے اور وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے مدد کے طلبگار تھے، اسی لیے وہ بار بار فون کر رہے تھے۔ بزرگ شخص کو پہلے تو یہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن جب اسے بار بار فون آتا رہا، تو اس نے آخر کار پولیس کو شکایت کر دی۔
غیر قانونی تارکین وطن کی یونان سے ترکی واپسی
01:50
پولیس اہلکار جب اس اطالوی باشندے کے گھر پہنچے تو اس دوران اسے دوبارہ فون آیا۔ ان اہلکاروں نے بتایا کہ انہیں فون پر ’سمندر کے پانی، تیز ہوا اور کشتی کے انجن‘ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اس لیے انہیں فوراﹰ اندازہ ہو گیا کہ یہ دراصل SOS یا ہنگامی مدد طلب کرنے کے لیے کی جانے والی کال تھی۔
اس پر پولیس نے فوراﹰ ملکی کوسٹ گارڈز کو اطلاع دی، جنہوں نے سیٹلائٹ فون کا مقام کا تعین کر کے مددگار کشتیاں وہاں بھیج دیں۔ کوسٹ گارڈز جب کھلے سمندر میں اس مقام تک پہنچے تو انہیں تارکین وطن کی پانچ کشتیاں دکھائی دیں، جن میں چھ سو کے قریب پناہ گزین سوار تھے۔
فون کرنے والے تارک وطن نے بتایا کہ وہ لوگ لیبیا سے اٹلی کے سفر پر نکلے تھے لیکن بحیرہ روم کے پانیوں میں گم ہو گئے۔ اس شخص نے مختلف اطالوی نمبروں پر فون کرنا شروع کر دیا لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔ آخر اس بزرگ شخص نے ایسی ہی ایک کال وصول کر لی تھی۔
اطالوی ساحلی محافظوں کے مطابق انہوں نے حالیہ دنوں کے دوران پندرہ سو سے زائد پناہ گزینوں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچایا ہے۔ ترکی سے یونان اور پھر وہاں سے مغربی یورپ پہنچنے کے راستے بند ہو جانے کے بعد بحیرہ روم کے راستے شمالی افریقی ممالک، بالخصوص لیبیا سے اٹلی کی جانب غیرقانونی سفر کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔