مسلم لیگ ن کی صدارت شہباز شریف سے لے کر نواز شریف کے حوالے
28 مئی 2024بظاہر اس فیصلے کا اعلان لاہور میں ہونے والے پارٹی کی جنرل کونسل کے ایک اجلاس میں اور ایک رسمی انتخابی کارروائی کے بعد کیا گیا ہے لیکن تجزیہ کار حبیب اکرم کے مطابق یہ فیصلہ شریف فیملی کی اس روایت کے عین مطابق ہے، جس کی رو سے اہم عہدے شریف فیملی کے اپنے لوگوں کے پاس ہی رکھے جاتے ہیں۔
اہم عہدے خاندان میں ہی رکھنے سے متعلق سینئر صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیر اعظم بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اس سے نون لیگ کا تاثر خراب ہوا، '' اس سب کے باوجود اگر یہ ڈیلیور کرنے میں کامیاب ہو گئے تو لوگ اس غلطی کو بھول جائیں گے۔ ‘‘
نواز شریف نے مسلم لیگ کی صدارت کیوں حاصل کی؟
تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول مسلم لیگ نون میں نون سے مراد نواز شریف ہیں۔ ان کو پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد پارٹی کے اندر یہ تاثر موجود تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس لیے ان کی عزت کی بحالی کے لیے اس منصب کو انہیں واپس لوٹایا گیا ہے۔
حبیب اکرم کہتے ہیں کہ اپنی تمام تر سینارٹی اور عزت کے باوجود نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کے ماتحت تھے، جو کہ پارٹی صدر کے طور پر بجٹ اجلاسوں، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخابات یا آئینی ترمیم میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کو آئینی طور پر حکم دینے کا اختیار رکھتے تھے۔ اب مسلم لیگ نون کی صدارت میں تبدیلی سے یہ اختیار نواز شریف کو واپس مل گیا ہے۔
صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کو پارٹی صدر کے طور پر اس لیے لایا گیا ہے کہ مسلم لیگ نون، جو اس وقت سیاسی اعتبار سے بہت نیچے جا چکی ہے، اسے کچھ سنبھالا دیا جا سکے۔ کیونکہ اگر پارٹی غیر مقبول ہو گئی تو پھر ان کا حکومت کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہو گا۔
کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون کی صدارت محض پہلا قدم ہے، اس کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم کا عہدہ بھی واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے رابطہ کرنے پر مسلم لیگ نون کے ایک وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہاں! ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
کیا نواز شریف بطور پارٹی صدر ڈیلیور کر پائیں گے؟
سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے لئے بہت بڑا چیلنج پارٹی کو متحرک کرنا اور اس کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا ہو گا۔ انہیں حکومت کی رہنمائی بھی کرنا ہو گی کیونکہ اگر مسلم لیگ کی اتحادی حکومت ڈیلیور نہ کر پائی تو پارٹی کے لئے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا، '' فیصلہ اصل میں یہ ہوا ہے کہ اب پارٹی کے سیاسی معاملات نواز شریف دیکھیں گے اور حکومتی کارکردگی سے عوام کو ریلیف دینے اور معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کا محاذ شہباز شریف سنبھالیں گے۔‘‘
حبیب اکرم کہتے ہیں کہ نواز شریف کے لئے سب سے بڑا چیلنج عمران خان ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟ ان کے خیال میں نواز شریف کے لئے ایک چیلنج پارٹی کا نیا بیانہ بنانا بھی ہو گا۔ اس سے پہلے نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقریریں کر کے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا، جو بیانہ بنایا تھا، اسے اپنے ہی ہاتھوں یو ٹرن لے کر دفن کر دیا، '' آج کے حالات میں مسلم لیگ نون قول و فعل کے تضاد کے ساتھ کوئی ایسا نیا بیانیہ نہیں بنا سکتی، جسے عوام آسانی سے قبول کر لیں۔
نوید چوہدری کہتے ہیں کہ سیاست ایک ایسی دکان ہے، جسے روز کھولنا پڑتا ہے خواہ وہاں ایک گاہک آئے یا پھر کھڑکی توڑ رش ہو، ''نواز شریف کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سیاست اب پارٹ ٹائم کام نہیں رہا۔ ان کو کارکنوں اور سیاسی لوگوں سے مسلسل رابطہ رکھنا ہو گا، وگرنہ ان کے لئے حالات اچھے نہیں ہوں گے۔ ان کی صحت ان کے لئے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ ‘‘
مسلم لیگ نون کا شہباز شریف گروپ
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نون میں شہباز شریف کے کچھ ساتھی ایسے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کی قربت کی وجہ سے نواز شریف کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ کیا وہ مسلم لیگ نون کے نواز شریف کی پالیسیوں کی طرف جھکاؤ کو آسانی سے قبول کر لیں گے؟
حبیب اکرم کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر میاں نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے اور ووٹ بنک بھی نواز شریف کے پاس ہے۔ شہباز شریف اور ان کے ساتھی باہمی مشاورت اور انٹرنل لابنگ کے ساتھ معمولی طور پر پارٹی سیاست پر اثر انداز ہو سکیں گے لیکن ان کی سیاسی طاقت زیادہ نہیں ہے۔
تجزیہ کار سلمان غنی کی رائے میں شہباز شریف تمام تنقید کے باوجود اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ساتھ رہے ہیں۔ وہ انہیں اپنے والد کی طرح کا احترام دیتے ہیں، اس لئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی راہ میں کوئی روڑہ اٹکائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کا صدر منتخب ہونے کے بعد نواز شریف نے اپنی تقریر میں شہباز شریف کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی ( میاں نواز شریف) سے بے وفائی کے صلے میں وزارت عظمیٰ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا۔
نوید چوہدری کے مطابق شہباز شریف گروپ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے اور وہ نواز شریف کو ایک حد سے آگے جانے سے روکنے کے کام آتا رہے گا۔
نواز شریف کا خطاب
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چھ سال بعد ایک بار پھر پارٹی کا بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے کے بعد کہا ہے کہ پارٹی کارکنوں نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ختم نہ کیا جاتا تو ملک میں غربت نہیں خوشحالی ہوتی، ''میرے دور میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آج کی نسبت کئی گنا کم تھیں۔‘‘ انہوں نے اپنے دور کے کارنامے گنوائے اور اس دور کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر تنقید بھی کی۔