شور بھی صحت کے لیے نقصان دہ آلودگی کی ایک قسم ہے۔ ایک واقعے میں تو شور کئی انسانوں کی موت کی وجہ بن گیا۔ ایک روسی شہری نے اپنے گھر کی کھڑکی کے نیچے بلند آواز میں گفتگو کرنے والے پانچ افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
اشتہار
روسی دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ خونریز واقعہ ماسکو سے تقریباﹰ 300 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف واقع ایک چھوٹے سے شہر ژیلاتما میں ہفتہ چار اپریل کو رات گئے پیش آیا۔ ایک رہائشی عمارت کے مرکزی دروازے کے سامنے کھڑے پانچ نوجوان آپس میں بہت بلند آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔
روسی قوم پرست زاروں کی واپسی کے خواہش مند
’آرتھوڈوکس عقیدہ یا موت‘ یہ ان کا نعرہ جنگ ہے۔ روس میں شاہی نظام کا حامی ایک مذہبی گروہ زاروں کے شاہی دور کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی آرتھوڈوکس کلیسا کی مدد سے۔ ماضی کے روسی بادشاہ ’زارِ روس‘ کہلاتے تھے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’سربراہ مملکت کوئی زار ہو‘
لیونڈ سیمونووچ بنیاد پرستوں کی ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ کے سربراہ ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ روسی مملکت کی سربراہی کسی زار کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعات اور مظاہروں کے ذریعے اپنی سوچ دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
کلیسا کا تعاون ضروری
لیونڈ سیمونووچ کہتے ہیں، ’’ہم بالکل ویسی ہی ایک مستحکم سلطنت کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں، جیسی روسی زاروں کے دور میں تھی۔‘‘ ان کے بقول ایسا کرنا صرف کلیسا کی مدد سے ہی ممکن ہے، ’’لادینیت اس کے لیے موزوں نہیں کیونکہ اس سے آمریت جنم لیتی ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
زار خاندان کا قتل
سترہ جولائی 1918ء کو زار نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انقلابی رہنما لینن کے کہنے پر انہیں یہ سزا دی گئی تھی۔ اس طرح روس میں تین سو سال پرانی رامانوف بادشاہت کا خاتمہ بھی ہو گیا تھا۔ زار خاندان کے قتل کے ایک سو سال پورے ہونے پر ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ نے ماسکو کے معروف اشپاسو اندرونیکوف راہب خانے کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
سیاہ لباس اور بینر اٹھائے ہوئے
’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ صرف مطلق العنان حکومت کی بحالی کا مطالبہ ہی نہیں کرتی بلکہ وہ روسی قوم پرستی کو دوبارہ زندہ کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان سیاہ لباس اور سیاہ رنگ کے جوتے پہنتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر روک موسیقی کے کسی کلب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ان افراد کے پاس صلیب جیسی مسیحی مذہبی علامات بھی ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
یادگار تصاویر سے آرائش
اس گروپ کے زیادہ تر لوگ آرائش کے لیے پرانی اور یادگار تصاویر دیواروں پر لگاتے ہیں۔ پال اس گروپ کے رکن ہیں اور ان کے کمرے کی دیواروں پر اُن تمام آرتھوڈوکس مسیحی خانقاہوں اور راہب خانوں کی تصاویر آویزاں ہیں، جن کے وہ دورے کر چکے ہیں۔ اس گروپ کے کچھ ارکان کی رائے میں معاشرتی تبدیلی کے لیے طاقت کے بل پر ایک انقلاب کی ضرورت ہے جبکہ دیگر ارکان زاروں کے شاہی دور کی واپسی کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
مقدس زار
سن 2000ء میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا نے قتل کر دیے جانے والے زار روس نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو سینٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ تاہم آرتھوڈوکس کلیسا کے پیروکاروں کی ایک مختصر تعداد نے ہی زار خاندان کے ارکان کے لیے مذہبی تقدیس کے اعلان کے بعد منعقد کردہ کلیسائی تقریب کے سلسلے میں خوشیاں منائی تھیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’آرتھوڈوکس مسیحی عقیدہ یا موت‘
روسی شہریوں کی ایک بہت بڑی اکثریت مسیحیت کے آرتھوڈوکس عقیدے کی پیروکار ہے۔ اس کے باوجود ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ اس لیے اس عقیدے کے پرچار کی کوشش کرتی ہے کہ اس کے نزدیک اس مسیحی فرقے کو مزید پھیلنا چاہیے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
7 تصاویر1 | 7
یہ بات عمارت کے ایک ایسے رہائشی کو بہت ناگوار گزری، جس کے فلیٹ کی کھڑکی کے عین نیچے یہ پانچوں نوجوان آپس میں کسی بحث میں مصروف تھے۔
اس مکین نے، جس کی عمر بتیس سال بتائی گئی ہے، اپنے فلیٹ کی بالکونی پر جا کر ان نوجوانوں کو اپنی آواز نیچی رکھنے کے لیے کہا تو اطراف کے مابین زبانی جھگڑا شروع ہو گیا۔
روس میں جرائم کی تفتیش کرنے والی مرکزی تحقیقاتی کمیٹی نے آج اتوار کے روز بتایا کہ جب یہ جھگڑا زیادہ ہو گیا، تو شور کی شکایت کرنے والا شخص مشتعل ہو کر شکار کے لیے استعمال کی جانے والی اپنی بندوق لے کر نیچے عمارت کے مرکزی دروازے تک گیا اور اس نے فائرنگ کر کے ان نوجوانوں کو قتل کر دیا۔
تفتیشی حکام کے مطابق پانچوں نوجوان موقع پر ہی دم توڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان عورت تھی اور باقی چاروں مرد۔
اس واقعے کے بعد مبینہ قاتل کو اس کے گھر کے قریب سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ دیر بعد پولیس نے اس کے گھر سے اس جرم میں استعمال ہونے والی بندوق بھی برآمد کر لی۔ وسطی روس کے جس علاقے میں اس جرم کا ارتکاب کیا گیا، وہاں بھی کورونا وائرس کی وبا کے باعث عام لوگوں کے اپنے گھروں سے نکلنے پر ملک کے دیگر حصوں کی طرح جزوی پابندی عائد ہے۔
م م / ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی)
ماسکو میٹرو کی انوکھی دنیا
حال ہی میں ماسکو میٹرو کے دو سو ویں اسٹیشن کا افتتاح عمل میں آیا ہے۔ یہ ایک الگ ہی سلطنت ہے۔ ہر اسٹیشن نہ صرف منفرد، خوبصورت اور جدید طرزِ تعمیر کا حامل ہے بلکہ روسی تاریخ کے کسی نہ کسی الگ دور کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔
تصویر: P. Anft
مضافات میں نیو پلاسٹسزم
رومیانسیوو: یہ زیر زمین میٹرو اسٹیشن ماسکو میں نئے تعمیر ہونے والے اسٹیشنز میں سے ایک ہے، اس کا ڈیزائن ولندیزی مصور پیٹ مونڈریاں کے فن سے ماخوذ ہے، جسے نیو پلاسٹسزم کا خالق کہا جاتا ہے۔ اس ڈیزائن میں مونڈریاں کے افقی اور عمودی خطوط کو چمکتے ہوئے فولاد اور پالش کیے گئے پتھروں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ یہ اسٹیشن ماسکو کے مرکز سے کچھ دور مضافاتی علاقے میں واقع ہے۔
تصویر: P. Anft
کرومیم کا جنگل
2014ء میں بننے والے اس اسٹیشن کا نام ہے، ٹروپارئیووو، جس کا جدید ترین ڈیزائن آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ کسی درخت سے مشابہ قدر آور انسٹالیشنز کرومیم چڑھی دھات سے بنائی گئی ہیں اور فوٹوگرافر شوق سے یہاں تصویریں بنانے کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: P. Anft
ستّر کے عشرے کی جھلک
جس وقت سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا اور سیاسی منظر نامہ ابتری کا شکار تھا، اُس دور میں بھی نئے اسٹیشنز کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ یہ اور بات ہے کہ اِس دور میں خوبصورتی اور آرائش سے زیادہ مقصدیت کو پیشِ نظر رکھا گیا۔ ستّر کے عشرے میں سادہ فن تعمیر کو جدید خیال کیا جاتا تھا۔ یہ تصویر کزنیٹسکی موست نامی اسٹیشن کی ہے، جس کا افتتاح 1975ء میں ہوا تھا۔
تصویر: P. Anft
آرٹ اور سوشلزم
ماسکو میٹرو کے شاندار اسٹیشن سٹالن کے دور میں تعمیر ہوئے۔ تب ڈیزائن میں آرائش و زیبائش اور مصورانہ شاہکاروں کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ ایسے موضوعات نمایاں ہیں، جن میں سوشلزم کے نظریے کی وضاحت کی گئی ہے۔ تصاویر میں زیادہ تر فوجی، مزدور اور کسان نظر آتے ہیں۔ یہ تصویر کییف سکایا اسٹیشن کی ہے، جس میں یوکرائن کے دیہات کے روزمرہ معموملات دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: P. Anft
ایک اسٹیشن فراموش کردہ دوستی کے لیے
کییف سکایا اسٹیشن کے ایک اور حصے کو روس اور یوکرائن کی دوستی کے نام کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے آرائشی فریمز کے اندر ایسے مناظر اور ایسی شخصیات کی تصاویر ہیں، جو دونوں ملکوں کی دوستی میں مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس اسٹیشن کا افتتاح 1950ء کے عشرے کے اوائل میں ہوا تھا۔ تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی یہی بردار قومیں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار بھی اٹھا لیں گی۔
تصویر: P. Anft
سوویت طرزِ تعمیر میں کلیسائی کھڑکیاں
نووسلوبوڈسکایا ماسکو کے بہت سے شہریوں کا پسندیدہ ترین اسٹیشن ہے۔ اس کا ڈیزائن دوسرے اسٹیشنوں کی طرح بہت شاہانہ بھی نہیں ہے اور یہ اُن سے چھوٹا بھی ہے لیکن اس کی خاص بات اس کی رنگا رنگ شیشوں سے مزین وہ روشن کھڑکیاں ہیں، جو کسی گرجا گھر کی یاد دلاتی ہیں۔ اس اسٹیشن میں روشنی اور رنگ دیکھ کر ایسے لگتا ہے، جیسے اوپر نیچے ہر طرف پانی ہی پانی ہو۔
تصویر: P. Anft
سطحِ زمین پر بنے اسٹیشن بھی جاذب نظر
ماسکو میٹرو کے سارے ہی اسٹیشن زیر زمین نہیں ہیں۔ زمین کی سطح پر بنے کئی اسٹیشن بھی بہت خوبصورت ہیں، جیسے کہ 1950ء سے چلا آ رہا ’پارک کلٹوری‘ اسٹیشن۔ اس طرح کے گنبدوں والے اسٹیشن زیادہ تر ماسکو کے مرکزی حصے میں ہیں۔ اس اسٹیشن پر عموماً بہت رَش ہوتا ہے اور یہاں سے لوگ دوسری سمتوں کو جانے کے لیے اپنی ٹرینیں بدلتے ہیں۔
تصویر: P. Anft
کسی دور کا تہ خانہ، آج ملاقات کا مقام
ماسکو کی میٹرو لوگوں کو جلد از جلد ایک سے دوسرے مقام تک ہی نہیں پہنچاتی بلکہ یہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے میل ملاقات کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ اکثر یہاں جوڑے، پرانے دوست یا کاروباری پارٹنر اردگرد سے بے نیاز اپنی گفتگو میں گم نظر آتے ہیں۔ 1938ء میں تعمیر ہونے والے مایا کووسکایا نامی اس قدیم اسٹیشن کو عالمی جنگ کے دوران فضائی حملوں سے بچاؤ کے لیے تہ خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔
تصویر: P. Anft
خوش قسمتی لانے والے جانور
پلوش چاڈ ریوولیوسٹسی: یہ اسٹیشن بھی 1938ء میں تعمیر ہوا تھا۔ یہاں کانسی کے بڑے بڑے مجسمے ہیں، جن میں سوشلسٹ ہیرو بھی ہیں لیکن اُن کے ساتھ ساتھ کسی مرغ یا کتے کے بھی مجسمے ہیں۔ پاس سے گزرنے والے مرغی کی کلغی کو یا پھر کتے کے منہ کو ہاتھوں سے چھُو لیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ایسا کرنا خوش قسمتی کا باعث بنتا ہے۔
تصویر: P. Anft
روزانہ آٹھ ملین انسانوں کے لیے 200 اسٹیشن
سرخ رنگ میں چمکنے والا ایم کا یہ نشان ماسکو کی میٹرو کا علامتی نشان ہے اور لوگ اسے شوق سے دیکھتے ہیں۔ ماسکو میں زیر زمین میٹرو کے یہ اسٹیشن کبھی کبھی ایک دوسرے سے کئی کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ ماسکو کی میٹرو کو ہر روز آٹھ ملین انسان استعمال کرتے ہیں۔ یہ تعداد جرمن شہروں برلن، میونخ، ہیمبرگ اور کولون کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ بنتی ہے۔