گھوڑا کیوں خریدا، بھارت میں دلت کا قتل
31 مارچ 2018![Global Ideas Through the lens](https://static.dw.com/image/36143941_800.webp)
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھارتی پولیس کے حوالے سے اکتیس مارچ کو بتایا ہے کہ ریاست گجرات میں ایک دلت کسان کی ہلاکت میں ملوث ہونے کے شبے میں تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان تینوں مشتبہ افراد کا تعلق بھارتی ذات پات کے نظام میں اعلیٰ درجے کی کھشتری ذات میں ہوتا ہے۔
دلتوں پر حملوں میں اضافہ، مودی کی مشکلات میں اضافے کا امکان
مردہ گائے کی لاش کیوں نہ اٹھائی، دلت حاملہ خاتون پر تشدد
ذات کیا انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہے؟
میڈیا رپورٹوں کے مطابق گجرات کے ٹمبی نامی ایک گاؤں میں قتل کا یہ واقعہ جمعرات کی رات کو رونما ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ تین افراد نے دلت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اکیس سالہ پردیپ راٹھور کو پہلے مارا پیٹا اور بعد ازاں اسے ہلاک کر دیا۔ خون میں لت پت پردیپ کی لاش برآمد ہو چکی ہے جبکہ پولیس نے مقتول کی والد کی شکایت پر تحقیقاتی عمل شروع کر دیا ہے۔
اعلیٰ پولیس اہلکار اے ایم صیاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ پردیپ کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کو بیٹے کو اس لیے ہلاک کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک گھوڑے کا مالک تھا۔
مقتول کے والد کے مطابق، ’’میرا بیٹا گھوڑوں سے پیار کرتا تھا اور اس نے آٹھ ماہ قبل ہی ایک گھوڑا خریدا تھا۔‘‘ اس نے مزید کہا، ’’میرے بیٹے کے قتل کی وجہ اس کی گھوڑوں کے لیے محبت بنی ہے۔‘‘
پردیپ کے والد نے مزید کہا، ’’ایک ہفتہ قبل جب میں اپنے بیٹے کے ہمراہ گھوڑے کی سواری کر رہا تھا تو گاؤں میں ’اونچی ذات‘ کھشتری سے تعلق رکھنے والے افراد نے خبردار کیا تھا کہ وہ گاؤں میں گھڑ سواری نہ کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان افراد نے کہا تھا، ’’دلت کمیونٹی کے افراد گھوڑے کی سواری نہیں کرسکتے۔ صرف کھشتری ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔ تب انہوں نے ہمیں دھمکایا تھا کہ اگر ہم نے یہ گھوڑا نہ بیچا تو ہمیں ہلاک کر دیا جائے گا۔‘‘
بھارت میں دلت کمیونٹی کے افراد کو ماضی میں بھی اس طرح کے پرتشدد حملوں کا سامنا رہا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ریاست گجرات میں ہی ایک دلت شخص کو اس لیے ہلاک کر دیا گیا تھا کیونکہ اس نے روایتی ہندو رقص کی ایک پرفارمنس میں شرکت کی تھی۔
ریاست گجرات سے ہی تعلق رکھنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے متعدد مرتبہ زور دیا کہ کہ ذات پات کی بنیاد پر دلت کمیونٹی کے افراد کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
ع ب / ع ا / اے ایف پی