گہرے سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، اولین عالمی معاہدہ
5 مارچ 2023
اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں کے مابین گہرے سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے اپنی نوعیت کے پہلے بین الاقوامی معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس بارے میں عالمی سطح پر سیاسی کوششیں پندرہ سال سے جاری تھیں۔
اشتہار
نیو یارک سے اتوار پانچ مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بین الاقوامی برادری کی سطح پر اپنی طرز کے اس اولین عالمی معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک ایسے اجلاس میں ممکن ہوا، جو چالیس گھنٹے تک جاری رہا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق یہ بین الاقوامی اتفاق رائے گہرے سمندروں کی صحت کے لیے اور ان کی سلامتی کو لاحق خطرات کے مقابلے کے لیے ایک بڑی عالمگیر کامیابی ہے۔
انتونیو گوٹیرش کے ترجمان نے کہا، ''عالمی سمندروں کی صحت اور سلامتی کو بہت تباہ کن ماحولیاتی رجحانات کے باعث ایسے خطرات کا سامنا ہے، جو ناقابل تصور نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس معاہدے پر اتفاق رائے نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کی تمام انسانی نسلوں کے لیے انتہائی فائدے مند ہو گا۔‘‘
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی ہی قسم کے جس پہلے عالمی معاہدے کی دستاویز پر اتفاق ہو گیا، اس کے لیے سمندری حیاتیاتی تنوع سے متعلق بین الحکومتی کانفرنس طویل عرصے سے کوشاں تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں عالمی سمندروں کے کم از کم 30 فیصد علاقے کو ایسے محفوظ خطے قرار دے دیا جائے، جہاں حیاتیاتی تنوع کی مکمل حفاظت کی جا سکے۔
اس کے علاوہ ایسے طریقہ ہائے کار کی تلاش بھی ایک اہم مقصد تھا، جن کی مدد سے یہ نگرانی بھی کی جا سکے کہ کسی بھی قسم کے اقتصادی منصوبے یا دیگر سرگرمیاں ایسی نہ ہوں، جو ان محفوظ سمندری علاقوں میں ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں سے متصادم ہوں۔
اس معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے کے بعد نیو یارک میں اس عمل میں شامل مذاکراتی گروپوں کی طرف سے جو اعلان کیا گیا، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب گہرے بین الاقوامی سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کو اعلیٰ حفاظتی معیارات کے تحت تحفظ حاصل ہو سکے گا۔
سمندروں کا عالمی دن، نیلے پانیوں کو بچانے کی نئی کوشش
شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں کہ اس کرہ ارض پر صحت مندانہ زندگی بسر کرنے کی خاطر صاف و شفاف سمندروں کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ سمندروں کا صاف پانی حیاتیاتی تنوع اور ایکو سسٹم کو اصل حالت میں برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
تصویر: World Resources Institute
نیلے پانیوں کو محفوظ بنائیں
عہد کیا گیا ہے کہ 2030ء تک سمندروں کو تیس فیصد تک زیادہ محفوظ بنایا جائے۔ اس مقصد کے تحت نا صرف سمندری حیات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا جو خشکی پر بسنے والی حیات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خطرے کا شکار ہے بلکہ آبی حیات کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت سمندری پانیوں میں آکسیجن کی مطلوبہ مقدار کم کر رہا ہے اور کورل ریفز یعنی مونگے کی چٹانوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
تصویر: Colourbox
سمندر، زمین کو محفوظ رکھنے میں معاون
کرہ ارض کا تقریباﹰ 70 فیصد حصہ سمندروں پر مبنی ہے۔ یہ سمندر اس سیارے کی پچاس فیصد آکسیجن پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔ اس زمین پر حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے یہ سمندر دنیا بھر میں ایک بلین نفوس کو پروٹین مہیا کرنے کا بھی ایک انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔ یہ سمندر اس زمین کا تحفظ یقینی بناتے ہیں، اس لیے یہ یقینی بنانا ہے کہ سمندر آلودہ نہ ہوں اور اس زمین کے نظام کو چلانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
تصویر: Imago-Images/Leemage/Novapix/P. Carril
کاربن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت
ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے مینگرَوز کے درخت، آبی نباتات اور سالٹ مارشز (موٹی گھاس سے بھرپور ساحلی علاقے ) عام جنگلات کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چار گنا زائد حد تک جذب کر لیتے ہیں۔ اس عمل کو بلیو کاربن ایکو سسٹم کہا جاتا ہے۔ پیرس کلائمٹ معاہدے کے تحت کاربن گیسوں میں کمی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے یہ سمندری سسٹمز انتہائی ناگزیر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA/USGS
سمندری اقتصادیات کو مستحکم بنانا
سمندر اسی وقت اقتصادی ترقی کا ایک پائیدار ذریعہ رہیں گے جب ان کا استعمال پائیدار طریقے سے کیا جائے۔ ماہی گیری کے روایتی طریقے ساحلی علاقوں کی اقتصادیات میں بہتری میں اہم ہیں جبکہ اس سے حیاتیاتی تنوع اور مقامی کلچر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ ’بلیو اکانومی‘ کا مقصد یہ بھی ہے کہ متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حررات کی صورت میں اس زمین کا لائف سپورٹ سسٹم متاثر نہ ہو۔
تصویر: picture-alliance/Demotix
بہت زیادہ مچھلیاں پکڑنے کا عمل ترک کیا جائے
سمندروں کو پائیدار بنانے کی خاطر غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا بھی ضروری ہے۔ اس وجہ سے جزائر گالاپاگوز میں حیاتیاتی تنوع سے بھرپور آبی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ چینی ماہی گیری کے بحری جہاز لاطینی امریکا کے سمندری پانیوں میں وسیع پیمانے پر ماہی گیری کر رہے ہیں، جسے گرین پیس نے ’لوٹ مار‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بحیرہ روم میں بلیوفن ٹونا مچھلی کی بقا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
پلاسٹک کا کچرہ دان
گریٹ پیسفک گاربیج پیَچ پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کوڑے کا ایک بڑا جزیرہ معلوم ہوتا ہے، جو اب امریکی ریاست ٹیکساس سے دو گنا بڑا ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلین پلاسٹک کے ٹکڑے جمع ہو چکے ہیں، جو اسّی ہزار ٹن کے کچرے کے وزن کے برابر ہے۔
تصویر: Greenpeace/Justin Hofman
بجلی کا حصول
سمندروں کی صاف لہروں کی مدد سے 2030ء تک یورپ میں بجلی کی ضروریات کا 10 فیصد حاصل کیا جائے گا۔ اس براعظم میں اس طرح بجلی کا حصول برطانیہ میں سب سے زیادہ اہم قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Bielmann
’سمندر زندگی سے جڑے ہیں‘
سابق امریکی صدر جان کینیڈی نے انسانوں کا پانی کے ساتھ تعلق بیان کرتے ہوئے کہا تھا، ’’انسانی جسم میں موجود رگوں میں دوڑتے خون میں نمک کی اتنی ہی مقدار ہے، جو سمندری پانی میں پائی جاتی ہے، اس لیے ہمارے خون، پسینے اور آنسوؤں میں بھی نمک ہوتا ہے۔‘‘ علامت نگاری کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا، ’’ہم سمندر سے جڑے ہوئے ہیں اور جب سمندر کی طرف بڑھتے ہیں، ہم اسی سمت جا رہے ہوتے ہیں، جہاں سے ہم آئے ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AA/M. Ciftci
8 تصاویر1 | 8
عملی فائدے کی صرف ایک مثال
اس نئے عالمی معاہدے کو عرف عام میں 'دا ہائی سیز ایگریمنٹ (The High Seas Agreement) کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تحفظ فطرت کے عالمی فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ماہر کیرولین شاخت نے کہا، ''یہ معاہدہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے وہ خطرناک نقائص دور کیے جا سکیں گے، جو اب تک موجود بین الاقوامی معاہدوں میں پائے جاتے تھے۔‘‘