گیارہ ستمبر کو تین طیاروں کے ذریعے امریکی طاقت کے مرکز پینٹاگون اور نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں میں جہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، وہیں اس دہشت گردی اور امریکی جوابی کارروائی سے عالمی سیاسی منظرنامہ بدل سا گیا۔
اشتہار
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت جو مناظر میں نے ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھے ان سے ان حملوں کی قیامت خیزی کا اندازہ بہ خوبی ہو رہا تھا، پورے امریکا میں ایک غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
میں سن 1989 سے امریکا جارہا ہوں۔ نیویارک کے خوبصورت مالیاتی مرکز کی بلند عمارتوں کے درمیان ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا تو اس کی گہما گہمی میری نظروں کے سامنے گھومنے لگی۔
بطور صحافی مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے صدر جارج بش نے امریکی عوام سے اپنے خطاب میں ورلڈ ٹڑیڈ سینٹر پر حملے کی ذمہ داری اور منصوبہ بندی کا الزام القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن پرعائد کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان حکومت کو پاکستان کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ اگر طالبان اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دیں، تو امریکا افغانستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
ان حملوں کے بیس برس مکمل ہونے پر یہ بھی میرے ذہن میں گونج رہا ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے سابق وزیرداخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر کو طالبان جنگجوؤں کے رہنما ملا عمر کے پاس اسامہ کی حوالگی کا پیغام دے کر بھیجا تھا۔
ملاعمر نے وزیر داخلہ کو تجویز دی تھی کہ وہ تین اسلامی ممالک کے چیف جسٹس پر مبنی کمیٹی کے روبرو اسامہ کو پیش کرنے کو رضا مند ہیں لیکن اسامہ کو امریکا کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ تاہم واشنگٹن نے ملا عمر کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
ان حملوں کے بعد آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل محمود افغانستان گئے، ان کے ہمراہ مفتی نظام الدین شامزئی بھی تھے مگر ملاعمر اسامہ کو حوالے کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔
نائن الیون: بیس سال بعد کا نیو یارک سٹی
گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بیس برس بعد کچھ زخم مندمل ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود نیو یارک شہر کو لگے زخموں کے کئی نشان باقی ہیں۔ یہ شہر بلند حوصلے کے ساتھ زندہ ہے اور رواں دواں ہے۔
تصویر: Chip Somodevilla/Getty Images
خاموش دعائیہ تقریب
سن 2014 میں نائن الیون نیشنل میموریل اور میوزیم کے افتتاح کے بعد سے اب تک لاکھوں افراد اس مقام کو دیکھنے آ چکے ہیں۔ یہاں ہر سال نائن الیون کی برسی کے موقع پر قریب تین ہزار ہلاک شدگان کو خاموشی سے یاد کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی سیاح بھی اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں۔
تصویر: Chip Somodevilla/Getty Images
ورلڈ ٹریڈ سینٹر شعلوں کی لپیٹ میں
انسانی ذہنوں میں ٹھہر جانے والا ایک نقش جلتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے دوسرے ہوائی جہاز کے ٹکرانے کا منظر ہے۔ ان جہازوں کے ٹکرانے کے ایک گھنٹے بعد جنوبی ٹاور منہدم ہو گیا اور پھر شمالی ٹاور کا انجام بھی یہی ہوا۔ تقریباﹰ اسی وقت ایک تیسرا ہوائی جہاز واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرایا تھا۔ یہ واقعات ٹیلی وژن پر پوری دنیا میں دیکھے گئے تھے۔
تصویر: Seth McCallister/AFPI/dpa/picture alliance
تاریخی صدمہ اور نتائج
ان واقعات کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کو ٹھہرایا گیا۔ یہ امریکی تاریخ کے شدید ترین حملے تھے۔ ان حملوں کے چند ہفتے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا۔ بعد میں سن 2011 میں اسامہ بن لادن کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ڈھونڈ کر امریکا نے ایک خفیہ فوجی آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Alex Fuchs/AFP/dpa/picture alliance
نئی اسکائی لائن
وَن ورلڈ ٹریڈ سینٹر گراؤنڈ زیرو پر تعمیر کیا گیا جو نیو یارک سٹی کی باقی تمام عمارات سے قدرے بلند ہے۔ اس کی بلندی چار سو سترہ میٹر ہے۔ یہ بلندی سن 2001 میں تباہ ہونے والے سینٹر جتنی ہی ہے۔ اس کا سنگِ بنیاد امریکی یوم آزادی کی مناسبت سے چار جولائی سن 2004 کو رکھا گیا تھا۔ اس کے تکمیل تعمیر کی تقریب مئی سن 2013 میں منعقد ہوئی تھی۔
تصویر: Ed Jones/AFP/Getty Images
یادگاری، تعلیمی، تعمیراتی انداز
نیشنل ستمبر الیون میموریل اور میوزیم کو ایک دستاویزی، تحقیقی اور ٹیچنگ مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا تعمیراتی ڈیزائن اسرائیلی امریکی آرکیٹیکٹ مائیکل اراد نے بنایا۔ اس کو دیکھنے ہر سال لاکھوں افراد آتے ہیں۔ صرف سن 2018 میں ہی تیس لاکھ افراد نے اس میوزیم کو دیکھا اور میموریل کو دیکھنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
گراؤنڈ زیرو سیلفی
بیس برس قبل جس مقام پر تین ہزار کے قریب انسان ہلاک ہوئے تھے، اب وہ مقام شہر کی زندگی میں سما گیا ہے۔ وہ جگہ جس نے نیو یارک شہر اور دنیا کی تاریخ کو تبدیل کیا، اب وہاں پر سیلفی بنانا اور یادگاری اشیاء کی خریداری سیاحوں کے معمولات میں شامل ہو گیا ہے۔
تصویر: Chip Somodevilla/Getty Images
ایک باہمت خاتون کی یاد
ایک چھوٹے سے گروپ نے اکتیس اگست سن 2021 کو لارین گرینڈکولاز کی یادگاری سالگرہ منائی۔ وہ یونائیٹڈ ایئر لائنز کی فلائٹ 93 میں سوار تھیں۔ لارین گرینڈکولاز اور دوسرے مسافروں نے ہائی جیکروں کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی تھی اور جہاز پینسلوانیا کے ایک کھیت میں گر گیا تھا۔ لارین اپنی کوشش میں ہلاک ہو گئیں لیکن ان کی کہانی گیارہ ستمبر کے حملوں کے تناظر میں کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
کئی یادگاری عمارات
ہڈسن رِیور فرنٹ نائن الیون میموریل نیو جرسی میں واقع ہے۔ یہ یادگار تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی باقیات کو استعمال کر کے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ نیو یارک سٹی کے ارد گرد تعمیر کی جانے والی کئی یادگاری عمارات میں سے ایک ہے۔
تصویر: Kena Betancur/AFP/Getty Images
بیس برس بعد
نائن الیون حملوں کے دو عشرے پورے ہو جانے پر نیو یارک شہر اس وقت کورونا کی وبا میں تیس ہزار سے زائد شہریوں کی موت کا سوگ بھی منا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ شہر حالیہ سمندری طوفان میں بیسیوں افراد کی ہلاکت پر بھی افسردہ ہے۔ لیکن اس شہر میں زندگی رواں دواں ہے اور اس کی کشش کم نہیں ہوئی۔
تصویر: Angela Weiss/AFP/Getty Images
9 تصاویر1 | 9
سابق وزیرداخلہ معین الدین حیدر نے بتایا کہ جب انہوں نے ملاعمر سے تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں اور تربیتی کیمپوں کو بند کرنے کے لیے کہا، توان کا جواب تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کریں گے مگرعملا ایسا نہیں ہوا۔
نائن الیون کے 20 سال مکمل ہونے پر خطے کی صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اس خطے کے دیگرممالک جن میں ایران، پاکستان، روس اور چین بھی شامل ہیں، ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔
امریکی افواج نے جس عجلت میں افغانستان سے فوجی انخلاء مکمل کیا ہے، اس کا پس منظر اور پیش منظر بڑا مختلف ہے۔ گو طالبان حکومت کوابھی تک کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے مگر دوحہ میں قائم طالبان کا سیاسی دفتر مغربی اور ایشیائی ممالک سے مکمل رابطے میں ہے۔
طالبان عالمی سطح پر اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ طالبان نے اپنی نئی حکومت کی حلف برداری منعقد کرنے کی تاریخ گیارہ ستمبر طے کی تھی مگر دباؤ کی وجہ سے اسے مؤخر کر دیا گیا۔ تاہم اس جنگجو گروہ کے عزائم کیا ہیں، اس کے بارے میں تو وقت ہی بتائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ القاعدہ کے قیام سے قبل سن 1994 میں شاہراہ فیصل پر دو امریکی سفارت کاروں کے قتل اور 1995 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کے باہر دو امریکی اہلکاروں کو قتل کرنے والے مبینہ ملزم رمزی یوسف اور ایمل کانسی کی گرفتاری نے القاعدہ کے قیام کی راہ ہموار کی تھی۔
سینئیرصحافی مظہرعباس کہتے ہیں کہ جب رمزی یوسف کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا گیا اور اسے ایک ائیرپورٹ سے کسی مقام پر ہیلی کاپٹر سے منتقل کیا جا رہا تھا تو ہیلی کاپٹرمیں بیٹھے ایف بی آئی کے ایجنٹ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے اوپر سے گزرتے ہوئے رمزی یوسف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'تم ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو اڑانا چاہتے تھے‘، جس ک جواب میں رمزی یوسف نے کہا کہ تھا کہ 'اگر میں کامیاب نہیں ہوا تو کوئی نہ کوئی کامیاب ضرور ہو گا‘۔
9/11: گیارہ ستمبر کے حملوں کے ایک خودکش پائلٹ کی کہانی