جرمن عوام دھڑا دھڑ الیکٹرک ہیٹرز خرید رہے ہیں۔ وجہ یہ خدشات ہیں کہ آنے والے موسم سرما میں جرمنی کو قدرتی گیس کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ گھروں کو گرم کرنے کے لیے گیس دستیاب ہی نہیں ہو گی۔
اشتہار
یہ منظر ہے جرمنی کے ایک ریٹیل اسٹور کا جہاں ایک تین سالہ بچہ ایک الیکٹرک ہیٹر پر اپنا ہاتھ رکھ کر گرمائش محسوس کرتا ہے اور پھر اپنے والد کو بتاتا ہے کہ یہ گرمائش کافی ہے۔ اور بہت سے برانڈز کے بنے ہوئے الیکٹرک ہیٹرز میں گھرا ہوا اس کا والد اس ہیٹر کی قیمت کا ٹیگ دیکھتا ہے۔
اس ریٹیل اسٹور کا یہ حصہ اس برس کچھ زیادہ ہی مصروف ہے اور اکثر کافی زیادہ لوگ الیکٹرک ہیٹر خریدنے کے لیے یہاں موجود ہوتے ہیں۔
سال 2022ء کے موسم سرما کے حوالے سے یہ خدشات دراصل روس کی طرف سے یورپ اور خاص طور پر جرمنی کو گیس کی فراہمیکو بڑی حد تک روک دینے کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔ اسی سبب گیس کی قیمت میں نہ صرف کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے بلکہ اس طرح کے خدشات بھی موجود ہیں کہ ملک میں موجود ذخیرہ شدہ گیس ختم ہونے کے بعد شاید اس حد تک گیس بھی دستیاب نہ ہو جو گھروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال ہو سکے۔
فروخت میں حیران کن اضافہ
سال 2022ء کے آغاز سے اب تک جرمنی میں 958,000 الیکٹرک ہیٹرز فروخت ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد وشمار گروتھ فار نالج (GfK) نامی مارکیٹ ریسرچ کمپنی کی طرف سے ڈی ڈبلیو کو فراہم کیے گئے ہیں۔
آئندہ موسم سرما جرمن عوام کے لیے کتنا مشکل ہو گا؟
02:44
ان اعداد وشمار کے مطابق جنوری سے اگست 2022ء کے دوران جرمنی میں الیکٹرک ہیٹرز کی فروخت میں گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں 76 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
لیکن اگر ان کی فروخت کو پانچ یورپی ممالک میں مجموعی طور پر دیکھا جائے یعنی جرمنی، برطانیہ، فرانس،ا سپین اور اٹلی کو تو ان میں گیس ہیٹرز کی فروخت میں گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران کی فروخت کے مقابلے میں 5.1 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر ممالک میں الیکٹرک ہیٹرز کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ جرمنی میں افراتفری میں خریداری کا سلسلہ بڑھا ہے۔
اشتہار
الیکٹرک ہیٹنگ کی لاگت میں بھی اضافہ
دیدہ زیب الیکٹرک ہیٹر جو اس تین سالہ بچے کو پسند آیا ہے، اس کی 199 یورو کی قیمت دیکھ کر اس بچے کا والد تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔ اسے اب فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ یہ بیش قیمت خریدے یا 25 یورو مالیت کا ایک چھوٹا پنکھا جو گرم ہوا دیتا ہے۔ ایسے پنکھے بھی بہت سی شکلوں اور سائز میں اس ریٹیل اسٹور میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
کچھ مہنگے ماڈل کم بجلی استعمال کرنے کا دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر زیادہ تر بجلی سے چلنے والے ہیٹر بہت زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔
بجلی سے چلنے والے ان ہیٹرز اور پانی کو گرم کرنے کے نظاموں میں گیس کی بجائے بجلی استعمال کرنے کی صورت میں خدشہ ہے کہ بجلی کی طلب بھی بڑھے گی اور پاور گرڈ پر دباؤ بھی۔
یورپ کے سب سے زیادہ دھوپ والے شہر کہاں کہاں
موسم گرما میں سورج تو ہر جگہ ہی جلوہ افروز ہوتا ہے لیکن بہت سے ممالک میں سورج کی روشنی دکھائی دینا معمول کی بات نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس پکچر گیلری کےذریعے ہم آپ کو یورپ کے سب سے زیادہ دھوپ والے دس شہروں کی سیر کرارہے ہیں۔
تصویر: Kian Lem/Unsplash/Holidu
غرناطہ: اسپین
غرناطہ کے صوبے اندُلس کے پہاڑی سلسلے سیرا نیواڈا کے دامن میں واقع یہ ہسپانوی شہر براعظم یورپ کے سب سے زیادہ دھوپ والے شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں ماہانہ اوسطاً 341 گھنٹے دھوپ رہتی ہے۔ یہاں قائم الحمرا پیلس اس خطے کی اسلامی تاریخ کے تعمیراتی شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے اور سب سے زیادہ دیکھی جانے والی یادگار مانا جاتا ہے۔
تصویر: Peter Schickert/picture alliance
لا پالما، جزائر کیناری: اسپین
گرینڈ کیناریا کے جزیرے پر واقع سب سے بڑا شہر لا پالما بھی مہینے میں اوسطاً 341 گھنٹے سورج کی روشنی سے چمکتا رہتا ہے۔ اس کا ساحل پورپ کے دلکش ترین ساحلوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کا ایک قدیم شہر Vegueta دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور لا کانتیرا بیچ )تصویر( پر گزارا گیا ایک دن بھی عمر بھر یاد رہتا ہے۔
تصویر: David Herraez Calzada/Zoonar/picture alliance
نیس: فرانس
یہاں سال بھر آب و ہوا معتدل اور ماہانہ 342 گھنٹے دھوپ رہتی ہے۔ تعطیلات کے لیے فرانس کے پسندیدہ شہروں میں سے ایک، نیس طویل عرصے سے سورج کی روشنی اور حدت سے لطف اندوز ہونے والوں میں نہایت مقبول ہے۔ خوبصورت فن تعمیر، ساحل سمندر اور یہاں کا سالانہ نیس جاز فیسٹیول دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر سال جولائی میں شہر کا ماسینا اسکوائر نامی علاقہ مختلف کنسرٹس کا مرکز بن جاتا ہے۔
تصویر: Global Travel Images/picture alliance
ویلینسیا: اسپین
مقصد اگر ساحل سمندر اور شہری زندگی کے امتزاج والی تعطیلات ہوں، تو ہسپانوی شہر ویلینسیا مثالی حیثیت کا حامل ہے۔ یہاں کی ایک خاص ڈش پائیلا ہے، جو خاص طور پر ایل کارمین کے علاقے کے بہت سے ریستورانوں میں دستیاب ہوتی ہے۔ اس علاقے میں قائم سان نیکولاس چرچ اور موسن سوریل مارکیٹ انتہائی متاثر کن ہیں۔
یہ سسلی کا تیسرا بڑا اور اس اطالوی جزیرے کا سب سے زیادہ دھوپ والا شہر ہے۔ یہاں ماہانہ اوسطاً 345 گھنٹے تیز دھوپ رہتی ہے۔ یہ شہر بھی تاریخ سے بھرپور ہے۔ گزشتہ صدیوں کے دوران متعدد بڑے زلزلوں نے اس بندرگاہی شہر پر گہرے نشانات چھوڑے ہیں۔ یہ مین لینڈ اٹلی کے پار واقع ہے۔ 1908ء کے بدترین زلزلے کے باوجود بارہویں صدی کا ایک کلیسا آج بھی ایک پرکشش مقام ہے۔
تصویر: robertharding/picture alliance
مالاگا: اسپین
ہر ماہ اوسطاً 345 گھنٹے سورج کی روشنی میں چمکتا رہنے والا جنوبی اسپین کا یہ علاقہ چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین ہے۔ یہ پرکشش ثقافتی مقامات، گرجا گھروں اور عجائب گھروں کا مرکز ہے اور معروف مصور پابلو پکاسو کی جائے پیدائش بھی۔ یہاں پانچ ہزار ہیکٹر پر پھیلا ہوا قدرتی پارک، یہاں کا ساحل اور ہائیکنگ کے لیے مشہور مونٹ دے مالاگا سیاحوں کے لیے بہت ہی پرکشش ہیں۔
یورپ کا تیسرا سب سے زیادہ دھوپ والا یہ شہر ہر ماہ اوسطاً 346 گھنٹے سورج کی روشنی میں چمکتا رہتا ہے۔ یہ اسپین کے مشرقی ساحل کوسٹا کالیدا پر واقع ہے۔ مُورسیا کے آس پاس کا علاقہ اپنے تفریحی اور سینیٹوریم مقامات کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں پانی کے بہت سے گرم چشمے بھی پائے جاتے ہیں۔
تصویر: Aleksandrs Tihonovs/Zoonar/picture alliance
کاتانیا: اٹلی
اطالوی جزیرے سسلی کے مشرقی ساحل پر واقع بندرگاہی شہر کاتانیا یورپ کا دوسرا سب سے زیادہ دھوپ والا شہر ہے، جہاں ہر ماہ اوسطاﹰ 347 گھنٹے دھوپ رہتی ہے۔ شہر کے مرکز میں واقع پیازا ڈیل دُواومو کی عمارات باروک طرز تعمیرکا شاہکار ہیں اور یہ علاقہ یونیسکو کے تسلیم کردہ عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ .
تصویر: imageBROKER/picture alliance
آلےکانتے: اسپین
یورپ کا سب سے زیادہ دھوپ والا شہر: صوبے آلےکانتے میں کوسٹا بلانکا کی ساحلی پٹی پر ماہانہ 349 گھنٹے دھوپ رہتی ہے۔ تاہم سورج کی کرنوں کے علاوہ یہاں کی تاریخی عمارات سے سجے دلکش شہر کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ اس علاقے کی کشش کی وجہ ہے۔ یہاں کی چاولوں کی ایک ڈش بہت ہی مقبول ہے۔
تصویر: Markus Mainka/picture alliance
طریقہ کار
یورپ کے سب سے زیادہ دھوپ والے شہروں کی اس درجہ بندی کے لیے انٹرنیٹ سرچ انجن ’ہولیڈُو‘ کو استعمال کیا گیا۔ یہ سرچ انجن بین الاقوامی سطح پر موسم کی پیش گوئی کرنے والی ویب سائٹ ورلڈ ویدر آن لائن کا ڈیٹا استعمال کرتی ہے۔ ’ہولیڈُو‘ نے 2009ء سے 2021ء کے دوران یورپ کے 300 سب سے زیادہ گنجان آباد شہروں میں سورج کی روشنی والے گھنٹوں کی ماہانہ اوسط تعداد کا حساب لگایا تھا۔
10 تصاویر1 | 10
جرمن فیڈرل ایسوسی ایشن آف انرجی اینڈ واٹر منیجمنٹ (BDEW) نے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں بتایا، ''(ہیٹرز) پاور گرڈز کو اوور لوڈ کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر جب ایک خاص علاقے میں کسی بہت سرد شام کو بہت زیادہ لوگ بیک وقت ان کا استعمال کرتے ہیں تو۔‘‘
اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگر جرمن حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر اولیت گھروں کو گیس کی فراہمی کو ہی دی جائے گی۔
بی ڈی ای ڈبلیو کے مطابق، ''ہم بہت پریشان کن صورتحال میں ہیں، مگر پریشانی پھیلانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پرائیویٹ گھر ہمارے ان صارفین میں شامل ہیں جنہیں تحفظ حاصل ہے۔‘‘
الیکٹرک ہیٹرز کا بہترین متبادل
جرمن شہر بون میں توانائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی اسٹاٹ ورکے بون (SWB) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ''انتہائی ضروری انفراسٹرکچر اور پرائیویٹ گھر ایسے صارفین ہیں جو پابندیوں کی زد میں سب سے آخر میں آئیں گے۔‘‘
اس کمپنی کے ایک ترجمان کے مطابق الیکٹرک ہیٹرز کا ایک بہترین نعم البدل الیکٹرک بلینکٹ یا کمبل ہے، جو ایک فین ہیٹر کے مقابلے میں بھی بہت ہی کم بجلی خرچ کرتا ہے۔