ہائبرڈ گندم سے خوراک کی کمی کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟
26 دسمبر 2022
امریکی کسانوں کو گندم کی ایک ایسی نئی قسم تک رسائی حاصل ہونے لگی ہے، جو زرعی شعبے کی ایک بہت بڑی کمپنی سِنجَینٹا نے تیار کی ہے۔ جینیاتی تبدیلیوں کے بغیر تیار کی گئی اس گندم کی مدد سے خوراک کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اشتہار
کرہ ارض پر انسانی آبادی میں مسلسل تیز رفتار اضافے اور اہم زرعی اجناس کی ترسیل میں کمی کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے زرعی اجناس کے بیج تیار کرنے والی دنیا کی بڑی کمپنیاں ایسی اقسام کی تیاری میں مصروف ہیں، جن سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔
سِنجَینٹا (Syngenta) کا شمار دنیا کی بیج تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور یہ کمپنی چین کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی طرف سے اگلے سال پانچ ہزار ایکڑ سے لے کر سات ہزار ایکٹر رقبے تک گندم کی ایسی نئی قسم کاشت کی جائے گی، جو ہائبرڈ گندم کہلاتی ہے۔ یہ رقبہ امریکہ میں گندم کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والے مجموعی رقبے کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ جرمن کمپنیاں باسف ایس ای (BASF SE) اور بائر اے جی (Bayer AG) بھی اس تیاری میں ہیں کہ رواں دہائی کے اختتام تک ہائبرڈ گندم کی اپنی اقسام متعارف کرا سکیں۔
ہائبرڈ گندم کیسے تیار کی جاتی ہے؟
زرعی تحقیق کرنے والے ماہرین ہائبرڈ گندم اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ عام گندم کے پودوں کی اپنی زیرہ پوشی یا pollinate کرنے کی قدرتی صلاحیت اس طرح ختم کر دیتے ہیں کہ کھیتوں میں مادہ پودوں کی زیرہ پوشی ایک دوسری قسم کے نر پودوں سے کی جاتی ہے۔ اس طرح گندم کا جو نیا اور منفرد بیج اس زرعی جنس کی دو مختلف انواع کے اختلاط سے تیار ہوتا ہے، وہ ہائبرڈ کہلاتا ہے۔
یوں تیار کیے جانے والے بیج گندم کی دو مختلف اقسام کے امتزاج کے باعث نہ صرف زیادہ پیداوار دیتے ہیں بلکہ ان میں اپنی پچھلی نباتاتی نسل کے مقابلے میں ناموافق ماحولیاتی اور موسمیاتی حالات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
کسی بھی زرعی جنس کی ہائبرڈ قسم تیار کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو مختلف نباتاتی انواع کی جملہ مثبت خصوصیات یکجا کر دی جاتی ہیں۔
اس عمل کا تاہم ایک قدرتی نقصان بھی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب گندم کی کسی ایک قسم میں نر اور مادہ پودوں کے مابین زیرہ پوشی کا عمل ہواؤں کی مدد سے قدرتی طور پر انجام پاتا ہے تو سبھی مادہ پودوں کی پولینیشن ہو جاتی ہے۔
لیکن اگر یہی پولینیشن یا زیرہ پوشی انسانی مداخلت کے نتیجے میں اور غیر قدرتی انداز میں کی جائے، تو کئی مادہ پودوں کی پولینیشن نہیں ہو پاتی۔ لیکن ماہرین اس کا بھی کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
ہائبرڈ فصلیں اب تک کس حد تک زیر استعمال؟
دنیا کے مختلف ممالک میں کسان کم از کم مکئی کی ہائبرڈ قسم تو 1930 کی دہائی سے اگا رہے ہیں۔ یوں اس فصل کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کے مختلف نباتاتی بیماریوں یا نقصان دہ کیڑوں کا شکار ہو جانے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اب تک جن سبزیوں کی ہائبرڈ اقسام اگانے کا طریقہ بھی رائج ہو چکا ہے، ان میں پیاز، پالک اور ٹماٹر شامل ہیں۔
ہائبرڈ گندم کے بیج تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کام کے لیے ہائبرڈ مکئی اور ہائبرڈ جو تیار کرنے کے حوالے سے اپنے اسی تجربے کو استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 1930 کی دہائی کے مقابلے میں 1990 کے عشرے تک مکئی کی پیداوار میں 600 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
امریکی محکمہ زراعت کے مطابق مکئی کی پیداوار میں چھ گنا تک کا حیران کن اضافہ جزوی طور پر ہائبرڈ مکئی تیار کرنے سے بھی ممکن ہوا جبکہ اسی عرصے میں گندم کی پیداوار میں بھی تقریباﹰ اڑھائی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔
اشتہار
ہائبرڈ گندم کے مارکیٹ میں آنے میں تاخیر کیوں؟
مکئی اور جو کے مقابلے میں ہائبرڈ گندم کے عالمی منڈیوں میں تجارت کے لیے پہنچنے میں مقابلتاﹰ کافی تاخیر اس لیے ہوئی کہ ہائبرڈ گندم کی تیاری زیادہ پیچیدہ اور کافی مہنگا عمل ہے۔
ہائبرڈ فصلوں کی تیاری کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے لیے متعلقہ فصل کے پودوں میں کوئی جینیاتی تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔ اس کے برعکس قانوناﹰ 'جین موڈیفائیڈ آرگنزم (GMO) یا 'جینیاتی تبدیلیوں والا جاندار‘ کے لیبل سے بچنے کے لیے پیداوار میں اضافے کے لیے ہائبرڈ انواع تیار کی جاتی ہیں۔
جینیاتی تبدیلیوں کے بعد تیار کی جانے والی مکئی اور سویا کی اقسام 1996ء میں تیار کی گئی تھیں اور انہیں جانوروں کی خوراک، حیاتیاتی ایندھن اور کوکنگ آئل جیسی مصنوعات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ زرعی اقسام دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ، برازیل اور اجنٹائن میں وسیع تر رقبے پر اگائی جانے لگی تھیں۔
کیڑے مار ادویات: حقائق اور رویے
زراعت میں کیڑے مار ادوایات کا استعمال معمول بن چکا ہے۔ ان کے استعمال کے خوراک، ہوا، پانی اور انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
تصویر: Florian Kopp/imageBROKER/picture alliance
کسانوں میں زہر کی موجودگی
ہر سال کیڑے مار ادویات کے سنگین زہریلے اثرات تین سو پچاسی ملین افراد میں رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ایسے متاثرہ افراد کی کثیر تعداد ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں پائی جاتی ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور حفاظتی کپڑوں کا بھی استعمال نہیں کرتے اور انہیں کیڑے مار ادویات کے زہریلے ہونے کے بارے میں مناسب معلومات بھی فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔
تصویر: Florian Kopp/imageBROKER/picture alliance
دائمی بیماریوں میں اضافہ
کیڑے مار ادویات کی وجہ سے لاطینی امریکی ملک نکاراگوا کے ایک شہر چیچی گالپا کے زیادہ تر مرد گردوں کی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ مرد گنے کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ چیچی گالپا کو فراہم کیے جانے والے پانی میں کیڑے مار ادویات کے زہریلی اثرات پائے گئے ہیں۔ اس پانی کی وجہ سے خوراک بھی زہر آلودہ ہو چکی ہے۔ ایسے علاقوں میں مختلف بیماریوں بشمول کینسر کے پھیلنے کا پتہ چلا ہے۔
تصویر: Alvaro Fuente/NurPhoto/picture alliance
حیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات
کیڑے مار ادویات کا اسپرے فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں اور غیر ضروری جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسے زہریلے اسپرے درختوں اور پودوں کی افزائش یا زرخیزی کے عمل کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ خطرناک کیڑوں کے ساتھ ساتھ زرخیزی کے عمل کا حصہ بننے والے کیڑے بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔
نظام ہضم کی مشکلات
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کیلوں پر کیے جانے والے اسپرے سے حیاتیاتی تنوع پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ چمگادڑوں کے نظام انہضام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اور بھی کئی جانوروں میں، ان مائیکروبس میں کمی واقع ہوئی ہے، جو ہاضمے کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ مثبت مائکروبیاٹا انسانوں اور جانوروں کی صحت کے لیے اہم خیال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: T. Douma/blickwinkel/picture-alliance
خطرناک کیڑے مار اسپریز کی ایکسپورٹ پر پابندی
یورپی ممالک کے مقابلے میں بھارت کے کسان کیڑے مار اسپرے کے استعمال میں حفاظتی اقدامات سے ناواقف ہیں۔ یورپی یونین میں انتہائی زہریلی کیڑے مار ادویات کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔ اس مناسبت سے کئی ممالک زہریلی کیڑے مار ادویات پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: C. Kaiser/blickwinkel/picture alliance
فصلوں کی حفاظت کیمیکل کے بغیر
آرگینیک ایگریکلچر یا کیمیاوی کھادوں اور ادویات کے استعمال کے بغیر والی زراعت مقبول ہو رہی ہے۔ ایسے آرگینیک کھیتوں پر کیمیاوی اسپرے کا استعمال ممنوع ہے۔ ان کھیتوں کی زرخیزی کو بحال رکھنے کے لیے ان میں کاشت وقفے سے کی جاتی ہے۔ اس تصویر میں نیپالی خواتین جڑی بوٹیوں اور گائے کے پیشاب سے تیار کردہ ایک اسپرے استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Wolf Gebhardt
6 تصاویر1 | 6
جینیاتی تبدیلیوں والی گندم کی وسیع تر تجارتی پیمانے پر کاشت آج تک اس لیے رواج نہ پا سکی کہ اس بارے میں صارفین میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے تھے۔ خاص طور پر یہ خدشات کہ ایسی گندم کے استعمال سے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی زرعی اجناس میں سے ایک ہے، عام انسانوں میں ممکنہ طور پر خاص طرح کی الرجی اور دیگر طبی مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔
امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں پارک ریور کے مقام پر ہینکی سیڈ کمپنی کے مالک ڈیو ہینکی کہتے ہیں، ''جینیاتی تبدیلیوں والی زرعی پیداوار کی عام صارفین میں مخالفت کے باعث یہ امکان زیادہ ہے کہ صارفین ہائبرڈ فصلوں کو زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ پبلک کی عمومی سوچ یہی ہو گی۔‘‘
ہائبرڈ گندم کے ممکنہ فوائد
ارجنٹائن کی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی Bioceres جینیاتی طور پر ترمیم شدہ ایسی گندم کی تیاری پر کام کر رہی ہے، جو خاص طور پر خشک سالی کے اثرات کا بہت اچھی طرح مقابلہ کر سکے گی۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وقت گزرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید ہوتے جانے کے ساتھ ساتھ عام صارفین میں جینیاتی تبدیلیوں والی فصلوں کی تجارتی پیداوار کو قبول کرتے جانے کا رجحان بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔
مٹی کے بغیر کاشتکاری، مستقبل کے انسان کے لیے مفید ہے؟
زمین کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے کھیتوں میں کاشتکاری کے عمل کو مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے۔ ابھی سے مزید خوراک کے حصول کی جدوجہد شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
خوراک کی عدم فراہمی اور زمین کے بغیر کاشتکاری
سن 2050 تک زمین کی آبادی پچاس ارب تک ہو سکتی ہے اور خوراک کی فراہمی ایک مشکل چیلنج ہو گا۔ زمین کے بعض حصے شدید بارشوں سے زیادہ نم زدہ ہیں جب کہ کچھ اور علاقے خشک تر ہو چکے ہیں۔ اس باعث کاشتکاری میں زیادہ اختراعی انداز اپنانا اہم ہو چکا ہے۔ ایسے میں زمین کی مٹی کے بغیر اختراعی کاشتکاری کو ایک حل خیال کیا گیا ہے۔ ریت یا پتھروں میں فصل بونے کو ہائیڈروپونکس کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ہوا میں پودے اگانے کا سلسلہ
کم جگہ میں فصل کاشت کر کے زیادہ پیداوار حاصل کرنا بھی اختراعی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسٹار ٹریک فلم کا کوئی منظر محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ قدیمی دور میں انسان ایسا کرتا رہا ہے۔ ایزٹک تہذیب کے لوگ معلق کھیتوں میں کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ ہائیڈروپونکس کا ایک مطلب زمین کے بغیر کاشتکاری بھی لیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. De Melo Moreira
پیداوار میں بے پناہ اضافہ
زمینی مٹی کے بغیر کاشتکاری کسی حد تک مصنوعی انداز میں کی جاتی ہے اور اس کے لیے غذائیت کو اہمیت حاصل ہے۔ مختلف طریقوں میں غذائی محلول کا استعمال کر کے جڑیں پھیلانے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں غذائی محلول کا اسپرے بھی شامل ہے۔ ایسی کاشتکاری میں مصنوعی انداز میں حرارت، روشنی اور دوسرے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پودا جلد تیار ہو جائے اور پیداوار بھی زیادہ دے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
مٹی کے بغیر کاشتکاری کا مؤثر انداز
اس طریقہٴ کاشتکاری یعنی ہائیڈروپونکس میں پانی کا انتہائی قلیل استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی کاشکاری سے دس فیصد کم پانی استعمال کر کے زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر خشم موسم میں کارگر ہے لیکن غذائیت یقینی طور پر فصل میں زیادہ موجود ہے۔ اسی طرح کیمیکل کھاد کا استعمال بھی کم ہوتا ہے۔ کیڑے مار ادویات نہ ہونے کے برابر استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ زمینی مٹی موجود نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
کاشتکاری کا عمودی انداز
ہائیڈروپونکس میں پودے عمودی طور پر لگائے جاتے ہیں تا کہ وہ اوپر کی جانب بڑھ سکیں۔ یہ پودے عموماً طشتریوں میں لگائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر کچھ فاصلے پر رکھی جاتی ہیں۔ اس انداز میں پودے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور کم جگہ گھیرتے ہیں۔ یہ اندازِ کاشتکاری مؤثر گردانا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ Photoshot
بغیر مٹی کے کاشتکاری کا منفی پہلو
ہائیڈروپونکس ایک طرح سے پیچیدہ کاشتکاری کا انداز قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ مہنگا ہے۔ پودوں کو غذائی مواد درکار ہے اور آلات کی بھی ضرورت ہے۔ بجلی کی فراہمی منقطع ہونے پر ساری فصل ضائع ہو سکتی ہے۔ مصنوعی انداز میں حرارت اور روشنی کی فراہمی ذاتی خرچ پر ہے جبکہ روایتی کاشتکاری میں حرارت اور روشنی کا ذریعہ سورج ہے، جو مفت ہے۔
تصویر: Imago/View Stock
ہائیڈروپونکس کو عروج حاصل ہو سکتا ہے
نظریاتی طور پر بغیر مٹی کے کسی بھی فصل کو اگایا جا سکتا ہے، جیسا کہ کھیرے، ٹماٹر، سبز سلاد، مرچ یا دوسری جڑی بوٹیاں لیکن سبھی کے لیے ایک خاص تکنیک کی ضرورت ہے۔ بظاہر بغیر مٹی کے کاشتکاری ابھی بہت مقبول نہیں ہے لیکن یہ مستقبل کے چیلنج کا سامنا کر سکتی ہے۔ سن 2016 میں اس انداز کی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس کا مالیتی حجم اکیس بلین ڈالر سے زائد تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
7 تصاویر1 | 7
دوسری طرف کئی دیگر کمپنیاں مختلف جغرافیائی حالات کے لیے مختلف اقسام کی بائبرڈ گندم کی تیاری پر بھی مسلسل کام کر رہی ہیں۔ جرمن کمپنی باسف کا کہنا ہے کہ وہ گندم کی جو ہائبرڈ قسم تیار کر رہی ہے، اس کی خاص بات ایک ایسی نباتاتی بیماری کا کامیابی سے مقابلہ کرنا ہے، جو Fusarium head blight کہلاتی ہے اور گندم کی پیداوار بہت کم کر دیتی ہے۔
مستقبل قریب سے وابستہ امیدیں
بائبرڈ گندم کی تیاری کے سلسلے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اتنی پیش رفت بہرحال دیکھنے میں آ چکی ہے کہ اب زرعی سائنس دان مستقبل قریب کے حوالے سے کافی پرامید ہیں۔
بہت بڑی جرمن ٹیکنالوجی کمپنی باسف کے زرعی مسائل کا حل تلاش کرنے والے ذیلی ادارے باسف اے ایس کے تحقیق و ترقی کے شعبے کے سربراہ پیٹر ایکیس کہتے ہیں، ''ہائبرڈ فصلیں تیار کرنا ایک بہت ہی پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے۔ تاہم اس شعبے میں جینیاتی سائنس اور بریڈنگ ٹیکنالوجیز کے شعبوں میں حالیہ برسوں میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ اب بڑے بڑے چیلنجز پر قابو پا لینا ممکن نظر آنے لگا ہے۔‘‘
م م / ش ر (روئٹرز)
افریقہ میں خُشک سالی: بھوک، پیاس اور خوف
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
افریقہ میں خشک سالی
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
سنگین نقصان
ایتھوپیا کے باشندوں کی اکثریت کھیتی باڑی اور مویشیوں کو پال کر اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ عفار کے علاقے سے تعلق رکھنے واے ایک کسان کا کہنا ہے، ’’ بارش کی آخری بوندیں میں نے گزشتہ رمضان میں دیکھی تھیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Negeri
بچوں کو لاحق خطرات
خُشک سالی اور بھوک 1984ء کی یاد دلاتی ہے۔ تب ایتھوپیا میں غذائی قلت قریب ایک ملین انسانوں کی ہلاکت کی سبب بنی تھی۔ اب یہ ملک پھر بھوک کے بحران کا شکار ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق چار لاکھ کم سن لڑکے اور لڑکیاں کم خوراکی کا شکار ہیں اور انہیں فوری طبی امداد کے ضرورت ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
النینو کے سبب سانس لینا دشوار
زمبابوے میں بھی فصلوں کی ابتر حالت ہے۔ دارالحکومت ہرارے کے کھیت بُھٹے کی لہلاتی فصل کی بجائے خُشکی اور جھاڑ جنگل کا مسکن بنی ہوئی ہیں۔ اس سب کے باعث تھوڑے عرصے کے وقفے سے اس جگہ آنے والا موسمی سائیکل ہے جسے النینو کہا جاتا ہے۔ اس بار اس کا دور دور نام و نشان نہیں۔
تصویر: Reuters/P. Bulawayo
آخری صلاحیتوں کا استعمال
نقاہت زدہ گائے بمشکل کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زمبابوے کے مرکزی علاقے کے کسان اسے چلانے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔ 2015 ء میں اُس سے پہلے سال کے مقابلے میں نصف بارش بھی نہیں ہوئی۔ فصلیں اور کھیت چٹیل میدان بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Bulawayo
بالکل خشک زمین پر
عموماً اس جگہ کھڑے ہونا یا بیٹھنا ناممکن ہے۔ جس کی وجہ دریائے بلیک اُمفو لوزی ہے۔ جنوبی افریقی شہر ڈربن کے شمال مشرق کا یہ دریا بالکل خُشک پڑا ہے۔ اس کے ارد گرد آباد شہریوں نے اس دریا کے وسط میں ایک کنواں کھودا ہے جس سے وہ پانی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Ward
خُشک سالی کے سبب قیمتیں ہوش رُبا
ملاوی بھی بُری طرح خُشک سالی کا شکار ہے۔ اس کے دارالحکومت کے قریب ہی واقع ایک مارکیٹ میں خریدار مہنگائی سے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ بنیادی غذائی اجزاء جیسے کہ بھٹے کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو چُکا ہے۔ فصلوں کی خرابی کے باوجود انہیں درآمد کیا جانا ضروری تھا۔