ہائی سکیورٹی سویڈش جیل کے گارڈ یرغمالی، بحران پیزا سے حل ہوا
22 جولائی 2021
سخت حفاظتی انتظامات والی ایک سویڈش جیل میں ’مسلح‘ قیدیوں کی طرف سے دو سکیورٹی گارڈز کے یرغمال بنا لیے جانے کا واقعہ بغیر کسی خونریزی کے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بحران کے حل کے لیے قیدیوں نے پیزا کھلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
تصویر: Mikael Fritzon/TT/dpa/picture alliance
اشتہار
سٹاک ہوم سے اکیس جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ بدھ بیس جولائی کی سہ پہر سویڈن کے شہر اَیسکِل سٹونا کے نواح میں ہالبی جیل میں پیش آیا۔ وہاں قتل کے جرم میں سزا کاٹنے والے اور بلیڈوں سے مسلح دو قیدیوں نے دو محافظوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
یرغمالیوں کے قتل کی دھمکی
ان قیدیوں کا مطالبہ تھا کہ جیل میں ان کے سیلز والے ونگ کے تمام 20 قیدیوں کے لیے پیزا آرڈر کیا جائے اور پیزا پر کباب کے گوشت کی ٹاپنگ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کا مطالبہ پورا نہ کیا گیا، تو یرغمالی گارڈز کی شہ رگیں کاٹ دی جائیں گی۔
اس واقعے کے بعد جیل انتظامیہ کی ایک ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اعلیٰ حکام نے قیدیوں کے ساتھ مذاکرات میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کر دیں۔ تاہم ملزمان راضی نہ ہوئے تو حکام نے مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے پیزا آرڈر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اغوا کار یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار نہ ہوئے تو نو گھنٹے بعد حکام نے مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے پیزے آرڈر کرنے کا فیصلہ کیاتصویر: picture-alliance/Photoshot
یرغمالیوں کی بحفاظت گھر واپسی
ٹورکل اومنیل نامی ایک جیل اہلکار نے ملکی میڈیا کو بتایا کہ جب یرغمال بنانے کے اس واقعے کو تقریباﹰ نو گھنٹے ہو چکے تھے تو جیل حکام نے نصف شب کے بعد ملزمان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بیس پیزے آرڈر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیل کی خاتون ترجمان سٹینا لائلس کے مطابق، ''اپنی رہائی کے بعد دونوں گارڈز بحفاظت واپس اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔‘‘
اس واقعے کے کچھ ہی دیر بعد سویدش میڈیا میں ایسی تصویریں بھی گردش کرنے لگیں، جن میں پولیس اہلکاروں کو ایک مقامی پیزا ریستوراں کے سامنے ڈبوں میں بند پیزے اپنی سرکاری کاروں میں رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ بعد ازاں اس ریستوراں کی طرف سے بھی تصدیق کر دی گئی کہ پولیس اہلکار 20 افراد کے لیے پیزے خرید کر ساتھ لے گئے تھے۔
اشتہار
ملزمان کی گرفتاری
جیل کی ترجمان لائلس کے مطابق، ''اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا اور دونوں گارڈز کی جانیں بچانے کے لیے اغوا کاروں کے مطالبے پر جیل میں ان کے ونگ کے تمام 20 قیدیوں کو رات کے کھانے کے لیے پیزے فراہم کر دیے گئے۔‘‘
ایل سیلواڈور کی بدمعاشوں سے بھری ’جہنم نما‘ جیلیں
لاطینی امریکی ملک ایل سیلواڈور کی جلیں بدمعاشوں سے بھر چکی ہیں۔ حکومت بدنام زمانہ مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں قتل کی وارداتوں میں کمی لائی جا سکے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
لاطینی امریکا کی جیلوں کا شمار دنیا سب سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں ہوتا ہے۔ ایل سیلواڈور کی جیلیں تنگ ہیں اور قیدی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Jose
ایل سلواڈور کو گزشتہ کئی دہائیوں سے گینگ وار کا سامنا ہے۔ منشیات فروش گروہ پھیل چکے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان گینگز سے وابستہ ہے جبکہ سرکاری جیلیں قیدیوں سے بھر چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ایل سیلواڈور وسطی امریکا کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے قتل کی وارداتوں کی سب سے زیادہ شرح اسی ملک میں بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
لیکن روزانہ قتل کے حساب سے یہ شرح اب کم ہو رہی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں روزانہ سترہ سے اٹھارہ قتل ہوتے تھے۔ اکتوبر دو ہزار انیس میں یہ شرح یومیہ 3.6 تک آگئی۔ مارچ دو ہزار میں مزید کمی کے ساتھ یہ شرح 2.1 قتل فی دن تھی۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
صدر نیب بوکیلے نے جون دو ہزار انیس میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے مطابق قتل کی وارداتوں میں کمی حکومت کی بڑی کامیابی ہے ۔ انہوں نے مسلح گینگز کے حوالے سے ’زیرو ٹولیرینس‘ پالیسی متعارف کروائی ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
اس پالیسی کے تحت گینگ کے ارکان کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی ہے جبکہ انہیں ہفتے کے سات دن اور چوبیس گھنٹے جیل سیل کے اندر رکھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/R. Escobar
اگر جیل کے اندر اور باہر سکون ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تو اس کے عوض قیدیوں کو ملاقات کی اجازت مل جاتی ہے۔ حکومت نے مختلف حریف گروہوں کے بدمعاشوں کو بھی ایک ساتھ جیل میں رکھنا شروع کیا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
حکام کے مطابق ملک میں قتل کی اسی فیصد وارداتوں کے احکامات جیل کے اندر سے ہی جاتے تھے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ ان قیدیوں کو رہا کرنے سے ایسی وارداتوں میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ان جیلوں کی سکیورٹی پر تعینات تمام پولیس اہلکاروں کو اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنا پڑتا ہے تاکہ ان کی پہچان نہ ہو سکے۔ ماضی میں گینگ وار کے لوگ پولیس سے بدلہ لینے کے لیے ان کے گھر والوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ایل سیلوا ڈور کی جیلوں میں مجموعی طور پر 18051 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 38000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
تصویر: Reuters/R. Cabezas
ان جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ماضی میں نامناسب حالات، سخت گرمی اور تپ دق جیسی بیماری بہت سے قیدیوں کی جان لے چکی ہے۔
مقامی ریڈیو ایس وی ٹی کے مطابق جب دونوں گارڈز رہا کر دیے گے، تو ان کو یرغمال بنانے والے دونوں سزا یافتہ قیدیوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور انہیں اغوا کے الزام میں تفتیش کے لیے اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئے۔
ہائی سکیورٹی جیل
سویڈش محکمہ جیل نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ یہ واقعہ بعد دوپہر پیش آیا تھا اور دونوں قیدیوں نے دونوں گارڈز کو اپنے قبضے میں لے کر خود کو ان کے کمرے میں بند کر لیا تھا۔ یرغمالی گارڈز میں سے ایک مرد تھا اور دوسری ایک خاتون۔
ہالبی جیل سویڈن کی کلاس ون درجے کی سکیورٹی جیل ہے، جسے اس اسکینڈے نیوین ملک میں حفاظتی انتظامات کے حوالے سے پورے ملک میں سخت ترین سکیورٹی والی جیلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ وہاں مجموعی طور پر 98 سزا یافتہ قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔
م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جیل توڑ کر بھاگنے کے حیران کن واقعات
اونچی اونچی دیواروں، آہنی سلاخوں اور مسلح محافظوں کے باوجود جب سے جیلیں معرض وجود میں آئی ہیں، تب سے قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ ایسے ہی چند حیران کن واقعات پر ایک نظر
تصویر: imago/Kai Koehler
فلموں جیسا سین
جولائی دو ہزار اٹھارہ میں فرانس کے مطلوب ترین مجرموں میں سے ایک جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ الجزائری نژاد فرانسیسی ڈکیت ریزوئن فائز کو جیل سے فرار ہونے میں صرف چند ہی منٹ لگے۔ فائز کے ساتھی ہیلی کاپٹر سے جیل میں اترے اور اسے بٹھا کر فرار ہو گئے۔ بعد ازاں یہ ہیلی کاپٹر پیرس کے مضافات سے ملا لیکن فائز ابھی تک مفرور ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. van der Hasselt
بینک ڈکیت
ہیلی کاپٹر کے ذریعے جیل سے فرار ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ قبل ازیں سن دو ہزار سات میں فرانسیسی شہر گراس میں بھی مشین گنوں سے لیس ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایسی ہی کارروائی کرتے ہوئے ایک بینک ڈکیت پاسکال پائیے کو آزاد کروا لیا گیا تھا۔ سن دو ہزار ایک میں پائیے کو تیس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Horvat
میکسیکو کی محفوظ ترین جیل؟
جولائی دوہزار پندرہ میں میکسیکو کے ڈرگ لارڈ ایل چاپو ملک کی محفوظ ترین جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے جیل کے غسل خانے میں ایک سرنگ کھودی تھی، جو جیل کے باہر ایک گھر میں جا کر نکلتی تھی۔ چودہ برسوں کے دوران چاپو کے جیل سے فرار ہونے کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔
تصویر: Reuters/PGR/Attorney General's Office
گٹر کے پائپ کے ذریعے
دو مجرموں نے جیل کی دیواروں میں سوراخ کیے جو گٹر کے مرکزی پائپ تک جاتے تھے۔ سن دو ہزار پندرہ میں نیویارک کی انتہائی سکیورٹی والی اس جیل سے قتل کے دو مجرم پائپ میں رینگتے ہوئے ایک گلی میں جا نکلے اور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Getty Images/New York State Governor's Office/D. McGee
بریف کیس کا وزن زیادہ کیوں؟
یہ مجرم فرار ہونے میں تقریباﹰ کامیاب ہونے ہی والا تھا۔ اس بریف کیس کے ذریعے سن دو ہزار گیارہ میں منشیات کے اسمگلر خوان رامیریز کو میکسیکو کے ایک جزیرے پر قائم جیل سے فرار کروانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن رامیریز کی بدقسمتی یہ تھی کہ جیل کے محافظوں کو بریف کیس قدرے بھاری معلوم ہوا۔ تلاشی لی گئی تو اندر سے یہ قیدی برآمد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sspqr
برطانیہ: ایک ساتھ 38 قیدی فرار
برطانیہ میں جیل توڑ کر فرار ہونے کی یہ سب سے بڑی کارروائی تھی۔ پچیس ستمبر 1983ء کو آئرش پبلک آرمی ( آئی آر اے) کے اڑتیس قیدی ایک ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ’میز جیل‘ کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ قیدی اندر اسمگل کیے گئے اسلحے کی مدد سے سکیورٹی اہلکاروں پر قابو پانے اور پھر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Mcerlane
ایسٹر کے انڈوں کی تلاش میں
’میں ایسٹر کے انڈے تلاش کرنے کے لیے گیا تھا‘۔ یہ فقرہ سوئٹرزلینڈ میں بہت مشہور ہوا۔ یہ بیان بینک ڈکیت والٹر شٹورم نے اس وقت دیا، جب وہ 1981ء میں جیل سے فرار ہونے کے بعد دوبارہ پکڑا گیا۔ مجموعی طور پر یہ ’شریف گینگسٹر‘ آٹھ مرتبہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ قید تنہائی کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے ملک بھر میں ان کی عزت کی جاتی تھی۔ 1999ء میں والٹر نے جیل میں ہی خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرار کے لیے وزن میں کمی
سیریل کِلر تھیوڈر بنڈی کا اصرار تھا کہ وہ اپنے مقدمے کا دفاع خود کرے گا۔ لیکن 1977ء میں وہ امریکی ریاست اوٹا کی جیل کی لائبریری سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ دوبارہ گرفتاری کے چھ ماہ بعد وہ پھر سے جیل توڑنے میں کامیاب رہا۔ جیل کی چھت میں ایک سوراخ سے گزرنے کے لیے اس نے اپنا وزن دس کلوگرام کم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
الکاٹراز کا افسانہ
اس جیل سے فرار ہونے کی کارروائی کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ 1962ء میں چمچوں اور ڈرِل مشین کی مدد سے تین قیدی الکاٹریز جزیرے پر واقع ہائی سکیورٹی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان قیدیوں میں فرانک لی مورس اور دو بھائی کلیرنس اور جان اینگلین شامل تھے۔