ریسکیو سروس کے لیے رکاوٹ بن جانے والے سو ڈرائیوروں کو جرمانہ
8 مارچ 2019
جرمنی میں اس وقت سو سے زائد ڈرائیوروں کی پریشانی یہ ہے کہ انہیں ایک ہائی وے پر ریسکیو کارکنوں کے راستے کی رکاوٹ بن جانے کی کیا قیمت چکانا ہو گی۔ اس تشویش کی وجہ ایک ایسا ہائی وے کریش ہے، جس میں وہ خود ملوث نہیں تھے۔
اشتہار
کسی بھی شاہراہ پر کسی حادثے کے بعد فوری مدد کرنے والی ریسکیو ٹیموں کے کارکنوں کے لیے ہنگامی طور پر راستہ چھوڑ کر ’ریسکیو کوریڈور‘ بنا دینا ایک ایسا عمل ہے، جو بہت سی قیمتیں انسانی جانیں بچا سکتا ہے۔ جرمنی میں بھی ہمشیہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایک واقعے میں ایسا بروقت نہ ہو سکا اور اب 100 سے زائد ڈرائیور یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ ان کی اس غلطی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
جرمنی دنیا میں صرف اپنی گاڑیوں کے لیے ہی مشہور نہیں بلکہ اپنی شاہراہوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ جرمنی کی کسی شہراہ پر اپنی گاڑی چلائیں، ان چند اصولوں کو مدنظر رکھیں۔
تصویر: Reuters/F. Bimmer
لائسنس رکھنے کی عمر
جرمنی وہ واحد یورپی ملک ہے جس نے اپنی اکثر شاہراہوں کے لیے تیز رفتاری کی قید نہیں رکھی ہے۔ یہاں موٹر وے کے انتہائی بہترین نظام ان شاہراہوں پر پُر سکون سفر کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں کسی لیگل گارڈین کی موجودگی میں گاڑی چلانے کے لیے 17 برس کی عمر میں ڈارئیونگ لائسنس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بغیر کسی گارڈین کی موجودگی میں لائسنس حاصل کرنے کی لیے کم سے کم 18 برس کی عمر کا ہونا ضروری ہے۔
تصویر: Imago/Horst Galuschka
ٹریفک میں اضافہ
جرمنی کی آٹو موبائل ایسوسی ایشن کے مطابق سن 2015ء کے مقابلے میں اب ٹریفک کے دباو میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اب زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
گاڑی کی رفتار
اگر پیچھے سے آنے والی گاڑی آپ کو مسلسل ہارن دے کر اپنی گاڑی کی اسپیڈ بڑھانے کے لیے دباو میں لا رہی ہے تو اس سے ہر گز نہ متاثر نا ہوں۔ اگر آپ فاسٹ لین میں نہیں ہیں تو آپ اپنی رفتار پر برقرار رہ سکتے ہیں۔
تصویر: imago/Jochen Tack
کیمروں سے ہوشیار!
جرمنی میں اسپیڈ کیمروں کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈبے کی شکل میں سڑک کنارے نصب کیمرے گاڑیوں کی رفتار کی حد کو جانچتے رہتے ہیں۔ اگر آپ رفتار کی حد کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو گاڑی کا چالان، ان کیمروں سے قید کی گئی ڈارئیونگ سیٹ پر آپ کی تصویر اور گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تفصیل گھر پر پہنچا دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Galuschka
سیل فون کا استعمال
اگر آپ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون ہاتھ میں تھامے نظر آئے تو اس پر سو یورو جرمانے کے علاوہ ڈرائیور لائسنس سے ایک پوائنٹ حذف کر دیا جاتا ہے۔ اگر گاڑی کسی حادثے کا باعث بنی ہے تو جرمانے میں اضافے کے علاوہ لائسنس سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہ جرمانے موبائل فون استعمال کرنے والے سائکل سواروں پر بھی لاگو ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Klose
مدد کو راستے نہ دینے پر جرمانہ
اگر کسی سڑک پر ٹریفک جام ہے تو ایمبولینس اور پولیس کے لیے ایک لین میں جگہ بنانا لازمی ہے۔ ایسا نہ کرنے والی گاڑیوں پر دو سو یورو جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
ہوشیار رہیئے
اگر آپ کی گاڑی خراب ہو جائے یا کوئی ایکسیڈنٹ ہو تو وارنگ سگنل دینا لازمی ہے۔ یعنی گاڑی کے اندر سڑک پر رکھنے والی نارنجی تکون رکھنا، روشنی پڑنے پر چمکنے والی جیکٹ پہنا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں میں فرسٹ ایڈ کٹ رکھنا بھی لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
7 تصاویر1 | 7
جہاں تک جرمن پولیس کے قانونی موقف کا تعلق ہے تو وہ چاہتی ہے کہ اس غلطی کے مرتکب ڈرائیوروں کو مجموعی طور پر کم از کم بھی 23 ہزار یورو (25 ہزار 800 امریکی ڈالر کے برابر) جرمانہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ ایک بڑی شاہراہ پر شدید نوعیت کے ایک حادثے کے بعد ریسکیو ٹیمیں کے لیے ’ایمرجنسی کوریڈور‘ بنانے میں ناکام رہے تھے۔
جنوب مغربی جرمنی کے دو بڑے شہروں کارلسروہے اور ہائیڈل برگ کے درمیان A5 یا قومی شاہراہ نمبر پانچ پر یہ حادثہ جمعرات سات مارچ کو سہ پہر دو بجے سے کچھ پہلے پیش آیا تھا۔
یہ کریش اس وقت ہوا جب بہت تیز رفتاری سے سفر کرنے والے ایک ٹرک نے ایک دوسرے ٹرک کو پیچھے سے ٹکر مار دی تھی۔
جس ٹرک نے ٹکر ماری، اس کا ڈرائیور شدید زخمی ہو گیا تھا اور اسے اس کے ٹرک سے زخمی حالت میں نکالنے کے لیے فائر بریگیڈ کے کارکنوں کا موقع پر پہنچنا لازمی تھا۔ اس ڈرائیور کو اس کے سامنے سے بری طرح تباہ ہو جانے والے ٹرک سے نکال کر ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوری طور پر ایک قریبی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ لیکن پولیس بہت ناراض تھی۔
جرمن شاہراہیں، کیا حقیقت اور کیا افسانہ
جرمن موٹر وے کا پیچیدہ مگر پُرکشش نیٹ ورک اس پر سفر کرنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے رکھتا ہے۔ جانیے کہ جرمن شاہراہوں کے حوالے سے داستانیں کیا ہیں اور حقائق کیا بتاتے ہیں۔
تصویر: Universum Film
سب سے قدیم شاہراہ
جرمن دارالحکومت برلن میں اندرونِ شہر شاہراہ ’اے وی یو ایس‘ کو ملک کی سب سے قدیم موٹر وے تصور کیا جاتا ہے۔ اسے سن 1913 اور سن 1921 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ اُس وقت یہ محض دس کلومیٹر طویل تھی۔ اس کے اتنا مختصر ہونے کے سبب اسے جرمنی میں شاہراہوں کا نقشِ اول بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
صرف گاڑیوں کے لیے سڑک
جرمنی میں پہلی ’باقاعدہ‘ موٹر وے کولون اور بون کے شہروں کے درمیان 6 اگست سن 1932 کو گاڑیوں کی آمد ورفت کے لیے کھولی گئی۔ اس ہائی وے کو سرکاری طور پر بھی ’ وہیکلز، اونلی روڈ‘ یعنی ’صرف گاڑیوں کے لیے سٹرک‘ ہی کہا گیا۔ آج یہ سڑک آٹو بان ’اے 555‘ کا ایک حصہ ہے۔
تصویر: DW/M. Nelioubin
موٹر وے کی تعمیر ہٹلر کی تجویز نہیں تھی
مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ جرمنی میں پہلی موٹر وے کی تعمیر کی ہدایت ایڈولف ہٹلر نے نہیں دی تھی۔ گزشتہ سلائیڈ میں دکھائی گئی سڑک بنانے کا منصوبہ، کلون کے اس وقت کے لارڈ مئیر کونراڈ آڈے ناؤر کا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb
’ہائی وے ون‘، شاہراہوں کی چیمپئین
دنیا بھر کی شاہراہوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آسٹریلیا کی ’ہائی وے ون‘ نامی سڑک دنیا کی سب سے طویل شاہراہ ہے۔ یہ سڑک قریب تمام برِاعظم آسٹریلیا کا احاطہ کرتی ہے اور اس کی طوالت 14،000 کلو میٹر سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حیرت انگیز نیٹ ورک
جرمنی کو ’گنجان ترین شاہراہوں کا ملک‘ کہا جاتا ہے۔ جرمن ’آٹوبان‘ یا موٹر وے کے اِس نیٹ ورک کی لمبائی تقریباﹰ 13،000 کلو میٹر ہے۔ اگرچہ آٹوبان ملکی شاہراہوں کا صرف چھ فیصد ہے لیکن جرمنی کی ایک تہائی مجموعی ٹریفک اسی موٹر وے پر انحصار کرتی ہے۔
تصویر: Universum Film
موٹر وے کے بڑھتے ٹول ٹیکس
جرمن وزیرِ ٹرانسپورٹ الیگزینڈر ڈوبرینڈٹ کو توقع ہے کہ ہائی وے پر مسافر بردار گاڑیوں کے لیے ٹول ٹیکس متعارف کرانے سے ملک کو سالانہ 500 ملین یورو کی آمدنی ہو گی۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹول جمع کرنے کی غرض سے بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے کثیر اخراجات کرنے ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
6 تصاویر1 | 6
موقع پر موجود پولیس کے انتہائی غیر مطمئن اہلکاروں کو شکایت اس وقت اسی آٹوبان پر سفر کرنے والے اور اپنی اپنی گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹوں پر بیٹھے ان سو سے زائد افراد سے تھی، جو کوشش کے باوجود ہنگامی طور پر ریسکیو گاڑیوں کے لیے راستہ چھوڑنے میں ناکام رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ان ڈرائیوروں کی وجہ سے ہائی وے کے جس حصے پر ’ہنگامی کوریڈور‘ نہ بن سکا، وہ تقریباﹰ پانچ کلومیٹر طویل تھا۔
اس حادثے کے بعد جب ریسکیو کارکن زخمی ڈرائیور کی جان بچانے میں مصروف تھے، تو اس موٹر وے پر ٹریفک جام مزید پھیل کر 20 کلومیٹر طویل ہو گیا تھا۔ جرمن ہائی وے پولیس کے مطابق اس حادثے کے نتیجے میں مادی نقصانات کی مالیت تقریباﹰ 50 ہزار یورو بنتی ہے۔
لیکن جس غلطی کے یہ 100 سے زائد ڈرائیور مرتکب ہوئے، اس کی تلافی کے لیے انفرادی جرمانوں کی صورت میں انہیں مجموعی طور پر تقریباﹰ 23 ہزار یورو تو پولیس کو ادا کرنا ہی ہوں گے۔
م م / ع ت / آلیکسانڈر پیئرسن
برلن اور میونخ کے درمیان تیز رفتار ٹرین لائن کا افتتاح
پچیس سال کی مسلسل محنت شاقہ اور اربوں یورو کی لاگت سے آخری ’ جرمن یونیٹی ٹرانسمیشن پراجیکٹ‘ بالآخر مکمل ہو گیا ہے۔ جرمنی کے شہروں میونخ اور برلن کے درمیان ہائی سپیڈ ریلوے لائن کھول دی گئی ہے۔
تصویر: Deutsche Bahn/Foto: Detlev Wecke
ایک عظیم الشان منصوبہ
پچیس سال پہلے آغاز ہوئے میونخ برلن ٹرین لائن منصوبے کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا گیا کہ یہ منصوبہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی آمدنی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال اب ’ وی ڈی ای 8‘ نامی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور دس دسمبر سے اس ٹرین کے ذریعے سفر کا وقت دو گھنٹےکم ہو کر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/J. Woitas
مسافروں کے لیے پر کشش
ڈوئچے بان کی کوشش ہے کہ ٹرین کے سفر کو مسافروں کے لیے بجٹ ایئر لائنوں اور بسوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پر کشش بنایا جائے۔ فی الحال اس روٹ پر ٹرین ٹرانسپورٹ کا شیئر بیس فیصد ہے جسے ڈوئچے بان اسے پچاس فیصد تک بڑھانا چاہتی ہے۔
تصویر: Deutsche Bahn AG/Frank Barteld
پُل اور سرنگیں
میونخ اور برلن کے درمین نئے ٹرین روٹ کے لیے قریب ریل کے لیے تین سو جبکہ سڑکوں پر 170 پُل تعمیر کیے گئے۔ اس ریلوے ٹریک پر چلنے والی ٹرینیں سرنگوں سے 300 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt
چند مزید جھلکیاں
اس ریلوے ٹریک پر دن میں تین مرتبہ انٹر سٹی ایکسپریس ٹرینیں دونوں سمتوں میں چلتی ہیں اور دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ چار گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے کر لیتی ہیں۔ ریگولر انٹر سٹی ایکسپریس ٹرینیں یہ فاصلہ ساڑھے چار گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہنگے ٹکٹ
ریلوے ٹریک کی تعمیر پر آئی لاگت کو کسی نہ کسی شکل میں وصول کیا جائے گا۔ تیز رفتار ٹرینوں میں مسافروں کے لیے دلچسپی پیدا کرنا ایک حکمت عملی ہے اور ٹکٹ کی قیمتیں بڑھانا دوسری۔ ڈوئچے بان کے تخمینے کے مطابق میونخ اور برلن کے ایک ٹرپ کے لیے مسافروں کو فی کس 150 یورو خرچ کرنے ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
لاکھوں یورو ماحول کے لیے بھی
ماحول کے لیے جرمنی کے وفاقی ادارے نے ریلوے ٹریک کی تعمیر سے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات پر تنقید کی ہے تاہم ڈوئچے بان کا دعوی ہے کہ اُس نے چار ہزار ہیکٹر رقبے پر دوبارہ کاشت کی ہے اور چھ لاکھ درخت لگائے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
زمین کے نیچے چلنے والی مال بردار ٹرینیں
نیورمبرگ مال برادر سرگرمیوں کا بڑا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیورمبرگ اور فیُورتھ کا درمیانی روٹ جرمنی کا مصروف ترین ٹرین ٹریک ہے۔ اب تیرہ کلو میٹر طویل کارگو ٹرین ٹریک نے اس مشکل کو خاصا آسان بنا دیا ہے۔
تصویر: DB AG
جہاز کے بجائے ٹرین کا سفر
اب ڈوئچے بان کے سامنے بڑا چیلنج لوگوں کو اس پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بسوں اور فضائی سفر کے بجائے ٹرینوں کا انتخاب کریں۔ اگر ٹرینیں اپنے نظام الاوقات کی پابندی کریں تو یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔