پاک بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا امکان کم
جاوید اختر، نئی دہلی
29 مارچ 2021
حالیہ ہفتوں میں پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں جانب سے مثبت بیانات دیے گئے ہیں جس کے باعث دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی امید کی جارہی تھی۔
اشتہار
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پیر کو تاجکستان کے شہر دوشنبے میں 'ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد افغانستان پر علاققئی تعاون ہے۔ بھارت بھی اس کانفرنس کا حصہ ہے۔
تاہم دوشنبے روانہ ہونے سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال ان کی وہاں بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ نہ ان کی کوئی ملاقات طے ہے اور نہ ہی اس کی درخواست کی گئی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی طرف سے ابھی اس پرکوئی واضح بیان سامنا نہیں آیا۔
دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت کے تناظر میں خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ملاقات کریں گے۔ ان اطلاعات کو دفتر خارجہ کے اس بیان سے بھی تقویت ملی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ اس اہم کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی ”اہم علاقائی اور بین الاقوامی پارٹنرز سے مشاورت کریں گے۔"
اشتہار
بھارتی موقف
بھارت نے ابھی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ممکنہ ملاقات کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ 26مارچ کو نئی دہلی میں انڈیا اکنامک کانکلیو میں جب بھارتی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ آیا وہ دوشنبے میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گے تو ایس جے شنکر نے کوئی واضح جواب دینے کے بجائے کہا کہ ”میرا پروگرام ابھی تیار ہورہا ہے۔ابھی تک میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی کوئی میٹنگ طے ہوئی ہے۔"
جے شنکر سے جب مزید سوال کیا گیا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان معاہدہ اور سندھ طاس کمشنروں کی بات چیت کو کیا وہ باہمی تعلقات میں بہتری کی علامت سمجھتے ہیں تو بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان معاہدہ کافی حساس معاہدہ ہے۔"
بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی آخری ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کی بشکیک میں مئی 2019میں ہوئی تھی۔ اس وقت آنجہانی سشما سوراج بھارتی وزیر خارجہ تھیں۔ لیکن پھر اگست 2019میں مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی، جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنروں کوواپس بلالیا تھا اور سفارتی عملے کی تعداد بھی نصف کردی تھی۔
طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی
01:57
امیدیں اور امکانات
تاہم گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کی بحالی پر معاہدہ اور پھر وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی طرف سے امن کے حوالے سے بیانات کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں کمی کی امیدیں پیدا ہوگئیں۔ جنرل باجوہ نے کہا تھا ”اب ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔"
دوسری طرف بھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے گزشتہ جمعرات کو کہا تھا کہ ایل او سی پر اس وقت سکون ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا گزشتہ پانچ چھ برسوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں ایک پاکستانی ٹیم دہلی سے ملحق نوئیڈا میں منعقدہ بین الاقوامی نیزہ بازی ورلڈ کپ مقابلے کے کوالیفائنگ میچ میں شرکت کے لیے آئی تھی جبکہ دونوں ملکوں کے سندھ آبی کمیشن کی 116ویں میٹنگ ”خوشگوار ماحول" میں منعقد ہوئی۔
پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ
04:32
This browser does not support the video element.
یہ ایک 'پیٹرن‘ ہے
تاہم اسٹریٹیجک امور کے ماہرین دونوں ملکوں کے ان اقدامات کو باہمی تعلقات میں ایک'پیٹرن‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت او رپاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ مذاکرات کا فقدان دونوں کے لیے مہنگا ثابت ہوگا۔
انڈین کاونسل آف ورلڈ افیئرز کے ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان میں بھارت کے سابق سفیر ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ”بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک پیٹرن ہے۔ یہ پچھلے ستر برسوں سے زیادہ عرصے سے چلا آرہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دونوں حکومتیں یہ دیکھیں گی کہ انہیں ان کوششوں کو کیسے آگے لے جانا ہے۔" راگھون کا کہنا تھا کہ ”کشمیر بہرحال ایجنڈے میں ہمیشہ موجود رہے گا۔"
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔