ہالینڈ، سریبرینیتسا میں 300 افراد کے قتل کا ذمہ دار، ڈچ عدالت
16 جولائی 20141995ء میں ہونے والے سریبرینیتسا میں قتل ہونے والوں کے لواحقین نے ڈچ حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے امن فوجیوں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ سرب فوجیوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے مسلمانوں کی حفاظت میں ناکام رہے تھے۔ ان بوسنیائی مسلمانوں کو بوسنیا کی جنگ ختم ہونے سے پہلے چند ماہ کے دوران قتل کیا گیا تھا۔
عدالت کی طرف سے فیصلہ دیا گیا کہ ڈچ ریاست ان افراد کے قتل کی ذمہ دار تو ہے جنہیں اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں قتل کیا گیا تھا مگر تمام تر ہلاکتوں کی ذمہ دار نہیں ہے۔ سربیائی فوجوں نے ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے امن فوجیوں کو یہ کمپاؤنڈ خالی کرنے کا کہا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قتل ہونے والوں کے رشتہ داروں کی طرف سے فیصلے پر اطمینان اور دکھ کے ملے جلے جذبوں کا اظہار دیکھنے میں آیا۔
سریبرینیتسا میں قتل ہونے والوں کی والداؤں کی نمائندہ منیرہ سوباسک Munira Subasic کے مطابق، ’’آج ہم نے ایک گروپ کے لیے انصاف حاصل کر لیا‘‘۔ آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن آپ ایک ماں کو یہ بات کیسے سمجھائیں گے کہ خار دار تار کی ایک جانب کھڑے ہوئے ایک بیٹے کی ہلاکت کا ذمہ دار تو ہالینڈ ہے مگر اس خاردار تار سے دوسری طرف موجود بیٹے کی ہلاکت کا نہیں؟‘‘ منیرہ سوباسک کے مطابق، ’’ ڈچ کمپاؤنڈ اتنا بڑا تھا کہ اس میں ہر ایک کو آنے کی اجازت دی جا سکتی تھی۔ ہم سچ اور انصاف کی تلاش جاری رکھیں گے۔‘‘
مسلمانوں کی محدود آبادی 11 جولائی 1995ء تک اقوام متحدہ کے تحفظ میں تھی۔ تاہم اس کے بعد راڈکو ملاڈچ کی سربراہی میں سربیائی فورسز اس علاقے پر چڑھ دوڑی تھیں۔ ملاڈچ کے خلاف ان دنوں بوسنیا میں جنگی جرائم اور نسلی کشی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔ ان میں سریبرینیتسا کا قتل عام بھی شامل ہے۔
ملاڈچ کے فوجیوں نے ہلکے اسلحے سے لیس ڈچ امن فوجیوں کو اس محفوظ علاقے سے نکال دیا تھا جہاں قریبی علاقوں کے مسلمان تحفظ حاصل کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
اس کے بعد کے دنوں کے دوران قریب 8000 مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفن کر دی گئی تھیں۔ دو بین الاقوامی عدالتوں کی طرف سے اسے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔