کئی یورپی ممالک کی طرح ہالینڈ میں بھی برقع پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ لباس خواتین کے استحصال کی نشانی ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ یہ آزادی مذہب پر ایک قدغن ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اشتہار
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر یکم اگست بروز جمعرات سےعملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نےسکیورٹی تحفظات کی وجہ سے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
اس قانون کے مطابق عوامی مقامات جیسا کہ اسکولوں، ہسپتالوں، عوامی عمارات اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کے دوران کوئی بھی اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ نہیں سکے گا۔ تاہم اس پر مکمل عملدرآمد کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔
اس پابندی کے نفاذ کے بعد متعلقہ حکام سکیورٹی وجوہات کی بنا پر لوگوں کو اپنا چہرہ دکھانے کا کہہ سکیں گے اور اگر کوئی اس سے انکار کرے گا تو اسے عوامی مقامات تک رسائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ہی اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو ڈیڑھ سو یورو کا جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔
اس پابندی کا اطلاق ان افراد پر بھی ہو گا، جو ہیلمٹ یا ایسا کنٹوپ پہنتے ہیں، جس سے چہرہ مکمل طور پر ڈھک جاتا ہے۔ اس پابندی پر کئی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ کئی ڈچ شہروں، ہسپتالوں اور پبلک ٹرانسپورٹ آپریٹرز حتیٰ کہ پولیس نے بھی کہا ہے کہ وہ اس قانون پر سختی سے عمل نہیں کریں گے۔
یورپ میں فرانس ایسا پہلا ملک تھا، جہاں تقریبا دس برس قبل برقع پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ برس اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا۔
کئی یورپی ممالک یہ پابندی لگائی جا چکی ہے۔ ڈنمارک میں بھی گزشتہ برس سے سخت تنقید کے باوجود برقع پر پابندی عائد ہے۔ رواں برس کے آغاز پر آسٹریا میں ایک ایسا قانون منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد پرائمری اسکول کی بچیوں کے ہیڈ اسکارف پر پابندی لگانا مقصود تھا۔ آسٹریا میں سن دو ہزار سترہ سے برقع پر پابندی عائد ہے۔
جرمن صوبے ہیسے میں سول سروسز کے لیے برقع پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ چھ ماہ قبل جرمن شہر کیل کی یونیورسٹی میں چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے پر پابندی لگائی گئی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ گفتگو کے دوران چہرے کے تاثرات اور اشاراتی حرکات ابلاغ کی تفہیم کے لیے ضروری ہیں۔
ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔