ہالینڈ میں پارلیمانی انتخابات، ووٹنگ جاری
9 جون 2010سولہ اعشاریہ سات ملین کی آبادی والے ہالینڈ میں 12 ملین رائے دہندگان ہیں جب کہ تقریباً اٹھارہ سیاسی جماعتیں اِن عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ یونان میں معاشی بحران کے بعد یوور زون کے کسی بھی ملک میں یہ پہلے عام انتخابات ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جہاں معاشی مسائل کو حل کرنے کے وعدے کئے گئے، وہیں کچھ جماعتوں نے عوام کو یقین دلایا کہ برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں وہ تارکینِ وطن کے لئے سہولیات کم کر دیں گی اور غیر یورپی ممالک سے لوگوں کے ہالینڈ میں سکونت اختیار کرنے کے رجحان کو روکنے کے لئے اقدامات کریں گی۔
ووٹنگ ہالینڈ کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوئی اور ابھی رات نو بجے تک جاری رہے گی۔ تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق انتخابات میں رائے دہندگان کی شرکت کا تناسب بہت زیادہ نہیں رہے گا۔
ایک سروے کے مطابق 43 سالہ Mark Rutte کی لبرل پارٹی 34 سے 36 کے قریب نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں نظر آرہی ہے جب کہ ایمسٹرڈیم کے میئر 62 سالہ Jacob Cohen کی لیبر پارٹی 30 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے گی۔ چون سالہ موجودہ وزیرِاعظم Jan Peter Balkenende کی کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کے بار ے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ 24 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ 46 سالہ اسلام مخالف قدامت پرست رہنما Geert Wilders کی فریڈم پارٹی اٹھارہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں نظر آ رہی ہے۔ حکومت بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی کو کم از کم 76 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں لبرل پارٹی کی 21، لیبر پارٹی کی 33 اور کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کی 41 نشستیں تھیں۔ کسی کی بھی پارٹی کی واضح اکثریت نہ ہونے کی بناء پر، کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی، لیبر پارٹی اور کرسچین یونین نے مل کر مخلوط حکومت بنائی تھی۔ اس سال فروری میں یہ مخلوط حکومت اُس وقت ختم ہوگئی تھی، جب لیبر پارٹی نے افغانستان میں ڈچ فوجیوں کے مزید قیام کے حوالے سے اٹھنے والے مسئلے کے پیشِ نظرحکومت سے علٰیحدگی اختیار کر لی تھی۔
کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق ہالینڈ کی سیاست گزشتہ آٹھ سالوں میں کافی منقسم نظرآئی ہے۔ اِس دوران ملک میں چارحکومتیں تبدیل ہوئیں اور کوئی بھی حکومت اپنی چار سالہ آئینی مدت پوری نہیں کرپائی۔ آج ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے بھی سیاسی مبصرین کی یہی رائے ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایوان میں اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ایک بار پھر معرضِ وجود میں آنے والے مخلوط حکومت زیادہ عرصے چل بھی سکے گی یا نہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: امجد علی