ایمسٹرڈیم میں چاقو سے حملہ کرنے والے 19 سالہ ملزم جاوید ایس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ڈچ پولیس اس حملے کی چھان بین ایک دہشت گردانہ کارروائی کے طور پر کر رہی ہے۔ حملہ آور کے پاس جرمنی میں رہنے کا قانونی اجازت نامہ ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ڈچ پولیس کے حوالے سے اتوار کے دن بتایا ہے کہ انیس سالہ افغان جاوید ایس سے چھان بین کا سلسلہ جاری ہے اور اس حملے کے محرکات میں دہشت گردانہ کارروائی کا عنصر بھی ملحوظ رکھا جا رہا ہے۔ جمعے کے دن اس ملزم نے ایمسٹرڈیم کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر چاقو سے وار کرتے ہوئے دو امریکی شہریوں کو زخمی کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق فوری کارروائی کرتے ہوئے حملہ آور کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا، جس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ابتدائی تفتیش کے بعد مقامی پولیس نے کہا تھا کہ اس حملے کے محرکات واضح نہیں تاہم بعد ازاں تفتیش کاروں نے کہا کہ اس کیس کی تحقیقات میں دہشت گردی کا عنصر خارج از امکان نہیں رکھا جائے گا۔
ہفتے کے دن ہالینڈ میں امریکی سفارتخانے نے تصدیق کر دی تھی کہ زخمی ہونے والے دونوں افراد امریکی باشندے ہیں، جس کے بعد ڈچ پولیس نے اس کیس کے حوالے سے تازہ ترین معلومات میڈیا کو فراہم کیں۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور کے ابتدائی بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کارروائی کا محرک دہشت گردی تھا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ملزم نے کیا بیان دیا تھا۔
زخمیوں کا علاج جاری ہے اور طبی ذرائع کے مطابق ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ان امریکی شہریوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ دوسری طرف زخمی حملہ آور بھی ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ جاوید کی شہریت افغانستان کی بتائی گئی ہے جبکہ اس کے پاس جرمنی کا ریزڈینس پرمٹ ہے۔
ادھر جرمن حکام نے تصدیق کی ہے کہ ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ہے اور وہاں سے ڈیٹا اسٹوریج ڈوائسز کو ضبط کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا تجزیہ کیا جائے گا، جو اس کیس کی تحقیقات میں مدد فراہم کر سکے گا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جرمن پولیس اس کیس کی تحققیات کے سلسلے میں ڈچ حکام کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔