ہالینڈ کے اسلام مخالف گیئرٹ ولڈرز کے دست راست مسلمان ہو گئے
5 فروری 2019
ہالینڈ کے اسلام مخالف اور بہت متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز کے دیرینہ ساتھی اور سابق دست راست جورم وان کلیویرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان کے اس انکشاف پر ہالینڈ میں بہت سے حلقے قطعی حیران ہیں۔
اشتہار
ہالینڈ میں دی ہیگ سے منگل پانچ فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مراسلوں کے مطابق ملکی میڈیا میں آج شائع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ڈچ پارلیمان کے انتہائی دائیں بازو کے ایک سابق رکن اور ماضی میں گیئرٹ ولڈرز کے دست راست سمجھے جانے والے سیاستدان جورم وان کلیویرین نے اسلام قبول کرنے کا انکشاف کیا ہے۔
وان کلیویرین، گیئرٹ ولڈرز کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی (PVV) کی طرف سے ڈچ پارلیمان کے ایوان زیریں کے سات سال تک رکن رہے تھے اور اس دوران انہوں نے سیاسی سطح پر ایک مذہب کے طور پر اسلام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کی ہر ممکنہ حوالے سے مخالفت کی تھی۔
اس عرصے کے دوران اپنے بہت سخت گیر موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وان کلیویرن نے بیسیوں بار یہ مطالبے بھی کیے تھے کہ ہالینڈ میں برقعے اور مساجد کے میناروں پر پابندی ہونا چاہیے۔
ڈچ روزنامے ’الگیمین ڈاگ بلاڈ‘ (AD) کے مطابق یہ وہ دور تھا، جب گیئرٹ ولڈرز کے ساتھ مل کر جورم وان کلیویرین نے یہاں تک بھی کہہ دیا تھا، ’’ہم (اپنے ملک میں) کوئی اسلام نہیں چاہتے۔ اور اگر لازمی ہو تو کم سے کم ممکنہ حد تک۔‘‘
اب لیکن 40 سالہ جورم وان کلیویرین نے کہا ہے کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھ رہے تھے کہ اس عمل کے تقریباﹰ وسط میں ان کا ذہن ہی بدل گیا۔ پھر جو کچھ انہوں نے لکھا، وہ ان اعتراضات کی تردید اور جوابات تھے، جو غیر مسلم اسلام پر ایک مذہب کے طور پر کرتے ہیں۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
وان کلیویرن نے ڈچ اخبار این آر سی کو بتایا ، ’’تب تک جو کچھ بھی میں نے لکھا تھا، اگر وہ سچ ہے، تو میری اپنی رائے میں، میں مسلمان ہو چکا ہوں۔‘‘ جورم وان کلیویرن نے اس اخبار کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے گزشتہ برس 26 اکتوبر کو باقاعدہ طور پر اسلام قبول کر لیا تھا۔
ہالینڈ کے روزنامہ این آر سی نے اس بارے میں وان کلیویرن کے ایک انٹرویو کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جلد ہی اس ڈچ سیاسیتدان کی لکھی ایک کتاب بھی منظر عام پر آ رہی ہے، جس کا عنوان ہے، ’’مرتد: لادین دہشت گردی کے زمانے میں مسیحیت سے اسلام تک۔‘‘
ڈچ میڈیا کے مطابق وان کلیویرن کے اس انکشاف نے ہالینڈ میں بہت سے حلقوں کو بالکل حیران کر دیا ہے۔ ایک اخبار نے لکھا ہے، ’’ان کی طرف سے تبدیلی مذہب کے انکشاف سے ان کے دشمن اور دوست دونوں ہی ششدر رہ گئے۔‘‘ سیاسی طور پر وان کلیویرن نے 2014ء میں متنازعہ ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز سے دوری اور ان کی پارٹی سے علیحدگی اختیا رکر لی تھی۔
ترک وزیر کی ہالینڈ سے بے دخلی کے بعد دوطرفہ کشیدگی
ہالینڈ سے ترک وزیر فاطمہ بتول سایان کایا کی بے دخلی کے بعد روٹرڈیم اور استبول میں مظاہرے کیے گئے۔ اس دوران مظاہرین نے استنبول شہر میں واقع ڈچ قونصل خانے سے ڈچ پرچم عارضی طور پر اتار کر وہاں ترک پرچم بھی لہرا دیا۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
پولیس کی نگرانی میں واپسی
ہالینڈ پہنچنے پر ڈچ پولیس نے ترک وزیر برائے خاندانی امور فاطمہ بتول سایان کایا کو اپنی حفاظت میں بے دخل کر کے واپس جرمنی پہنچا دیا۔ وہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے وہاں پہنچی تھیں۔ خاتون وزیر کی اس طرح ملک بدری کے بعد روٹرڈیم میں مظاہرے شروع ہو گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/L. Guijo/Europa Press
’ترک وزیر خارجہ پر پابندی‘
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرنا چاہتے تھے لیکن ہفتہ گیارہ مارچ کے روز ڈچ حکومت نے ترک وزیر کو لے کر آنے والی ایک پرواز کو اپنے ہاں اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس طرح ترک وزیر خارجہ ہالینڈ نہ جا سکے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Peter Dejong
درجن بھر مظاہرین گرفتار
ڈچ پولیس کے مطابق روٹرڈیم میں واقع ترک قونصل خانے کے باہر سے بارہ مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس کے مطابق ان مظاہرین نے اتوار کو علی الصبح پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے بعد نقص امن کے الزامات کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس مظاہرے کے دوران سات افراد زخمی بھی ہو گئے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Peter Dejong
انقرہ کی طرف سے کڑی تنقید
ترک وزیر خارجہ پر پابندی کے بعد ترک حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے اجتماع سے خاندانی امور کی ترک خاتون وزیر فاطمہ بتول سایان کایا خطاب کریں گی۔ یہ ترک وزیر جب روٹرڈیم پہنچیں تو حکام نے انہیں بھی خطاب کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ڈچ حکومت کا موقف
روٹرڈیم میں شروع ہونے والے ترک باشندوں کے مظاہرے وہاں ترکی کے قونصل خانے کے باہر شروع ہوئے اور اس بارے میں ڈچ حکومت نے کہا کہ اس نے انقرہ حکومت کو مطلع کر دیا تھا کہ حکومت اس ریلی کی اجازت نہیں دے سکتی، جس کے انعقاد کا مطلب یہ ہوتا کہ ہالینڈ کی سلامتی اور امن عامہ پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Dejong/AP
متنازعہ ریفرنڈم کی تیاریاں
اپریل کے وسط میں ترکی میں ایک آئینی ریفرنڈم ہو رہا ہے، جس میں ترک ووٹروں سے ملک میں صدارتی نظام جمہوریت متعارف کرانے کے بارے میں رائے لی جائے گی۔ ترک حکومتی سیاستدان ہالینڈ اور جرمنی میں آباد لاکھوں ترک ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان ممالک میں ترک سیاسی ریلیوں سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ANP
خاتون وزیر کی وطن واپسی
ترک وزیر فاطمہ بتول سایان کایا اتوار کے دن وطن واپس پہنچیں تو انہوں نے ہالینڈ سے اپنی بے دخلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کسی خاتون وزیر کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا انتہائی برا رویہ ہے۔ اس ترک وزیر کے بقول ہالینڈ میں ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا، جو قابل مذمت ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Coskun
تارکین وطن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش
ہالینڈ اور ترکی کے مابین یہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی، جب ڈچ حکومت نے اپنے ہاں ترک باشندوں کی طرف سے منعقد کی جانے والی ریلیوں سے ترک رہنماؤں کے خطاب پر پابندی عائد کر دی۔ جرمنی اور ہالینڈ میں لاکھوں کی تعداد میں ترک نژاد تارکین وطن آباد ہیں، جو ترک شہری ہونے کی وجہ سے اس ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Coskun
ہالینڈ میں ترک باشندوں کی جڑیں
ہالینڈ میں قریب چار لاکھ ایسے ترک نژاد باشندے آباد ہیں، جو سولہ اپریل کو اپنے آبائی وطن میں ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں۔ ترک حکومتی وزراء اسی وجہ سے ایسے ترک باشندوں کے سیاسی اجتماعات سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Coskun
واٹر کینن کا استعمال
ترک خاتون وزیر کو ملک سے نکالنے پر روٹرڈیم میں جمع ترک صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے حامی ترک شہریوں نے مظاہرے شروع کر دیے، جن پر قابو پانے کے لیے ڈچ پولیس کو اپنے گھڑ سوار دستوں اور واٹر کینن یا پانی کی تیز دھار کا استعمال بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
10 تصاویر1 | 10
تب 2016ء میں وان کلیویرن نے انتہائی دائیں باز وکی اپنی ایک علیحدہ سیاسی جماعت بھی قائم کر لی تھی، جس کا نام انہوں نے وی این ایل یا ’فار نیدرلینڈز‘ رکھا تھا۔ 2017ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ان کی یہ جماعت کوئی ایک بھی پارلیمانی نشست نہیں جیت سکی تھی اور اس کے بعد وان کلیویرن نے عملی سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
ہالینڈ میں مراکشی نژاد مسلمانوں کی مساجد کی تنظیم کے ایک عہدیدار سعید بوہارو نے اخبار ’اے ڈی‘ کو بتایا، ’’یہ (وان کلیویرن کا قبول اسلام) ایک شاندار خبر ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے اتنی شدت سے اسلام کی مخالفت کی تھی، اب جان گیا ہے کہ یہ کوئی برا یا غلط مذہب نہیں ہے۔‘‘ سعید بوہارو نے مزید کہا، ’’انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘
ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز وہی اسلام مخالف رہنما ہیں، جنہوں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کا ایک متنازعہ مقابلہ منعقد کرانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کے ان ارادوں کے خلاف بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں وسیع تر احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ بعد میں ولڈرز نے اپنا یہ ارادوہ منسوخ کر دیا تھا۔
م م / ا ب ا / اے ایف پی
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔