ہالینڈ کے ٹی وی چینل کو نسل پرستانہ تبصرہ بہت مہنگا پڑا
20 جون 2020
ہالینڈ کے ایک ٹی وی چینل کو اس کے ایک مبصر کی طرف سے کیا گیا نسل پرستانہ تبصرہ بہت مہنگا پڑا ہے۔ ڈچ نیشنل فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کے علاوہ کئی کاروباری اداروں نے بھی اس ٹیلی وژن چینل کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
اشتہار
ایمسٹرڈم سے ہفتہ بیس جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہالینڈ کی قومی فٹ بال ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے جمعہ انیس جون کی رات کہا کہ وہ 'ویرونیکا اِن سائیڈ‘ نامی ٹیلی وژن چینل کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ اس چینل کے ایک کومنٹری کرنے والے میزبان کی طرف سے ایک پروگرام میں دیے جانے والے نسل پرستانہ ریمارکس بنے۔
ہالینڈ کی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں نے کہا کہ وہ آئندہ اس ٹی وی چینل کو اس کے فٹ بال سے متعلق پروگراموں میں یا ان کے لیے کوئی انٹرویو نہیں دیں گے۔ قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان ورجِل وان ڈائیک نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ''اس ادارے نے سرخ لکیر پار کر لی ہے۔ اور وہ بھی پہلی مرتبہ نہیں۔ نہ دوسری مرتبہ۔ وہ کئی مرتبہ ایسا کر چکا ہے۔ بار بار۔ لیکن اب بہت ہو گیا، بس!‘‘
اس بارے میں قومی فٹ بال ٹیم کے کئی کھلاڑیوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات پوسٹ کیے۔ میرل وان ڈونگن نامی سٹار فٹ بالر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''فٹ بال میں نسل پرستی کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی گنجائش ہے۔‘‘ ان کھلاڑیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار veronicaoffside کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹرینڈ بن گیا اور اس میں کئی ڈچ پیداواری اور کاروباری ادارے بھی شامل ہو گئے۔
'ویرونیکا اِن سائیڈ‘ پر کی جانے والی شدید تنقید کی وجہ اس کے ایک سپورٹس مبصر کی طرف سے دیے جانے والے وہ ریمارکس بنے، جن میں اس نے امریکا میں جارج فلوئڈ نامی افریقی نژاد شہری کی ہلاکت کے پس منظر میں کئی دیگر ممالک کی طرح نیدرلینڈز میں بھی نسل پرستی کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں سے متعلق ہتک آمیز جملے کہے تھے۔
لیکن اس مبصر کا یہ عمل اس ادارے کو اس لیے بہت مہنگا پڑا کہ اب ہالینڈ کے کئی پیداواری اور کاروباری اداروں نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس ٹی وی چینل کو اس کے کھیلوں سے متعلق پروگراموں کے دوران وقفے میں چلائے جانے والے کوئی اشتہارات نہیں دیں گے۔
ماہرین کے مطابق ڈچ نیشنل فٹ بالرز کی طرف سے بائیکاٹ اور کئی اداروں کے اشتہارات سے ہونے والی آمدنی کی عدم دستیابی سے اس نشریاتی ادارے کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو گی اور اسے کافی زیادہ مالی نقصان بھی ہو گا۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔