ہالی ووڈ بند، ہڑتال کرنے والوں میں اداکار بھی شامل
15 جولائی 2023
ہالی ووڈ اسکرین رائٹرز اور اداکاروں کی تاریخی ہڑتال کے سبب دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری وقتی طور پر مفلوج ہونے کے خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔
اشتہار
دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ کے اداکاروں نے جمعہ کے روز کیلیفورنیا سے نیویارک تک اسٹوڈیو ہیڈ کوارٹر کے باہر دھرنا دیا۔ اس ہڑتال کو کئی دہائیوں میں ہالی ووڈ کی سب سے بڑی ہڑتال قرار دیا جا رہا ہے جس کے سبب فلم اور ٹیلی ویژن پروڈکشن کا سلسلہ رک گیا ہے۔
لاس اینجلس کے مشہور سن سیٹ بولیوار پر واقع نیٹ فلکس کی عمارت کے ساتھ ساتھ ڈزنی، پیراماؤنٹ، وارنر اور ایمیزون کے احاطے میں سینکڑوں ہڑتالیوں نے پلے کارڈز کے ساتھ مارچ کیا۔
اُدھر نیویارک میں، جیسن سوڈیکیس اور سوسن سارینڈن بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان مظاہرین کا احتجاج اسٹوڈیو کے مالکان کی جانب سے اداکاروں کی بہتر تنخواہ اور ملازمت کے تحفظ کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار کے باعث شروع ہوا ہے۔ مشہور زمانہ فلم ''ٹائی ٹینک‘‘ میں اداکاری کرنے والی اداکارہ فرانسس فشر نے پیراماؤنٹ پکچرز کے باہر مارچ کے دوران کہا، ''اسٹوڈیو بہرے اور لالچی ہیں، اور انہیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم نے ہی انہیں امیر بنایا ہے۔‘‘
دریں اثناء 'اسکرین ایکٹرز گلڈ فاؤنڈیشن (SAG-AFTRA) کے ممبران ایسے اسکرپٹ رائٹرز کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں جو ہفتوں سے ہڑتال پر ہیں۔ ان اقدام نے ہالی ووڈ انڈسٹری کی 63 سالوں پر محیط تاریخ میں پہلی بار اتنے وسیع پیمانے پر واک آؤٹ تحریک کو متحرک کیا اور ہالی ووڈ کو مؤثر طریقے سے بند کروایا ہے۔
''فرینڈز‘‘ کی شریک تخلیق کار معروف امریکی فلم ساز مارٹا کافمین نے اپنے بیان میں کہا، ''ہم یہاں تقریباً 80 دنوں سے باہر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ SAG-AFTRA کی ہڑتال نے کافی توانائی فراہم کی ہے اور ناقابل یقین یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
پروڈکشن اسٹوڈیوز کے ساتھ ایک نئے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہونے کے بعد اداکاروں نے جمعرات کی آدھی رات کو باضابطہ طور پر ہڑتال شروع کی تھی۔ یونین کے مطالبات دراصل اسٹریمنگ دور میں کم ہوتی تنخواہ اور مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرے پر توجہ مرکوز کروانے کا سبب بنے ہیں۔
بالی ووڈ نے ہالی ووڈ کی کونسی فلموں کی نقل کی؟
بالی ووڈ کے ہدایت کار ہالی ووڈ کی مشہور ترین فلموں کے اکثر بھارتی ورژن ’ری میک‘ کرتے ہیں۔ جہاں ناقدین فلموں کی نقل کی مذمت کرتے ہیں، وہیں شائقین انگریزی زبان کی فلموں کا تازہ ورژن دیکھ کر کافی خوش ہوتے ہیں۔
ہالی ووڈ کی کامیاب ترین انگریزی فلموں کو دیگر ممالک کے فلم سازوں کی جانب سے اپنے مقامی ناظرین کے لیے دوبارہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ اس کے بدلے میں اسٹوڈیوز فلم کے رائٹس خرید لیتے ہیں۔ لیکن کئی بالی ووڈ ہدایت کار ہالی ووڈ فلموں کی ہو بہو نقل کرتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ ٹام ہینکس کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’فاریسٹ گَمپ‘ کا بھارتی ورژن بنایا گیا ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
’لال سنگھ چڈھا‘
عامر خان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ Viacom 18 Studios کی پروڈکشن ہے۔ یہ دراصل انگریزی فلم "Forrest Gump" کا آفیشل ری میک ہے، جس کہ تمام تر کاپی رائٹس پیراماؤنٹ پکچرز کے پاس ہیں اور عامر خان نے اسے دوبارہ فلم بند کرنے کے لیے کاپی رائٹس خریدے ہیں۔
کئی دہائیوں تک بھارتی فلم انڈسٹری امریکی فلموں کا مواد بغیر کسی قانونی اجازت کے استعمال کرتی رہی۔ سن 1987 میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم ’ڈرٹی ڈانسنگ‘ بھارتی فلم میکر پوجا بھٹ نے سن 2006 میں ’ہالی ڈے‘ کے نام سے ہندی زبان میں ری میک کی تھی۔ تاہم یہ فلم زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکی۔
تصویر: Constantin-film/dpa/picture alliance
’مسز ڈاؤٹ فائر‘
اس فلم میں ایک طلاق یافتہ مرد ایک خاتون کے روپ میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی پیشہ ور آیا کا کام کرتا ہے تاکہ اس کی سابقہ اہلیا اسے گھر میں کام کرنے کی اجازت دے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار سکے۔ سن 1993 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں ’مسز ڈاؤٹ فائر‘ کا مرکزی کردار رابن ولیمز نے بخوبی نبھایا تھا۔
تصویر: United Archives/picture alliance
'چاچی 420'
1997ء میں بالی ووڈ نے "مسز ڈاؤٹ فائر" کا ایک ری میک بنایا جس کا نام "چاچی 420" تھا۔ اس فلم میں کمل حسن نے اداکاری اور ہدایت کاری کی تھی۔ یہ فلم، درحقیقت ایک ری میک کا ری میک تھا، کیونکہ بالی ووڈ ورژن تامل زبان کی فلم انڈسٹری کولی ووڈ کی فلم ’اوائی شانمگی‘ پر مبنی تھا۔ "چاچی 420" نے بھارتی باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔
تصویر: National Film Archive India
'کانٹے'
مجرموں کا ایک گروہ بینک ڈکیتی میں ناکام ہو جاتا ہے — یہ ایک عام کہانی ہے اور فلم سازوں پر اسے نقل کرنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ سن 2002 میں ریلیز کی گئی بھارتی فلم ’کانٹے‘ میں کوینٹن ٹرانٹینو کی امریکی فلم ’’ریزروائر ڈاگس‘‘ کو ایک مثال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اس فلم کی کاسٹ میں عالمی شہرت یافتہ بالی ووڈ اسٹار امیتابھ بچن بھی شامل تھے۔
تصویر: White Feather Films/Film Club LdT.
'سپرمین'
بعض اوقات بالی ووڈ کی ری میک فلمیں اتنی زیادہ کاپی کی گئی ہوتی ہیں کہ وہ مزاحیہ لگتی ہیں۔ سن 1987 میں، ہدایت کار بی گپتا کے پاس "سپرمین" کے ری میک کے لیے ناکافی وسائل تھے، اس لیے انہوں نے اصل فلم سے تمام اقتباسات نقل کیے اور انہیں اپنی فلم میں شامل کردیے۔ کم از کم، مرکزی کردار کے لیے بھارتی فلم اسٹار دھرمیندر کو کاسٹ کیا گیا۔ لیکن اصل مین آف اسٹیل امریکی اداکار کرسٹوفر ریو ہی رہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
’ہری پتر‘
ہری پتر کا نام تو جادوگر لڑکے کے ایک معروف کردار ’ہیری پوٹر‘ سے ملتا جلتا ہے اور پوسٹر میں دکھائی گئی حویلی ہاگ وارٹس کے طلسماتی اسکول جیسی لگتی ہے۔ اسی لیے امریکی فلم اسٹوڈیو وارنر براز نے بالی ووڈ کے خلاف کیس کر دیا لیکن وہ عدالت میں مقدمہ ہار گئے کیونکہ یہ فلم ہیری پوٹر کی فلم کا ری میک نہیں ہے۔
تصویر: Mirchi Movies
’ہوم الون‘
سن 1990 میں ریلیز ہونے والی فیملی کامیڈی فلم ’ہوم الون‘ میں مکاؤلی کلکن نے کِیون نامی ایک ایسے بچے کا کاردار ادا کیا، جو کرسمس کی تعطیلات میں گھر پر اکیلا رہ جاتا ہے۔ اکیلے گھر میں اسے دو چوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالی ووڈ نے اس فلم کو اٹھارہ سال بعد کاپی کیا تھا۔
تصویر: United Archives/picture alliance
’دی گاڈ فادر‘
مارلن برینڈو نے اس فلم میں گاڈ فادر کے مشہور کردار میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس فلم کے کئی سیکوئلز اور ری میک بھی بنائے گئے۔ بالی ووڈ نے اس فلم کا ری میک بنانے میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ لگا دیا۔
تصویر: picture-alliance
’سرکار‘
بھارتی سپر اسٹار امیتابھ بچن نے سن 2005 میں ہندی فلم ’سرکار‘ میں ’گاڈ فادر‘ کا کردار نبھایا تھا۔ اس فلم میں ان کے بیٹے ابھیشیک بچن اور اداکارہ کترینا کیف سمیت کئی دیگر کامیاب بھارتی اداکاروں نے کام کیا تھا۔
تصویر: DESHAKALYAN CHOWDHURY/AFP/Getty Images
11 تصاویر1 | 11
ہالی ووڈ کی مشہور فلموں ''دی امیریکنز‘‘ اور ''فار آل مین کائنڈ‘‘ میں کردار ادا کرنے والی معروف 44 سالہ امریکی اداکارہ ویرا چرنی کا اس موقع پر کہنا تھا، ''ہم اس طویل سفر پر ہیں، لیکن یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان معاہدوں کو بند کروا دیں جو آنے والی نسلوں کے اداکاروں کے ساتھ ویسا ہی کریں گے جیسا 1960ء میں کیا گیا تھا۔‘‘
امریکہ میں اداکاروں کی یونین نے ''پے ٹیلی ویژن اور ہوم ویڈیو‘‘ کی آمد پر سن 1980 میں آخری بار ہڑتال کی تھی جو تین ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی۔ اس بار، یونین کا کہنا ہے کہ اسٹریمنگ کے ذریعے اداکاروں کی تنخواہ کو ''شدید طور پر نقصان پہنچ ہے‘‘۔ اداکاروں کی یونین کی طرف سے متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت ''ایک وجودی خطرہ‘‘ ہے۔
SAG-AFTRA نیویارک کے مقامی صدر اور اداکار ایزرا نائٹ نے کہا کہ AI ''حقیقی اداکاروں کو تخلیقی جگہ سے ہٹانے کی ایک دھمکی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ہم اس کے لیے حدود طے کرنا چاہتے ہیں، ہم رضامندی چاہتے ہیں اور اس کے لیے اجازت دینے کے قابل بننا چاہتے ہیں۔‘‘
الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز (AMPTP) کا کہنا ہے کہ اس نے اداکاروں کو تنخواہوں میں بڑے اضافے اور AI کی ایک جامع تجویز پیش کی تھی۔
ہالی ووڈ کے چوٹی کے اداکاروں سمیت 60 ہزار فنکاروں کی نمائندگی کرنے والے ادارے SAG-AFTRA اور رائٹرز گلڈ آف امریکہ WGA نے تنخواہوں اور بقایاجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس امر کی ضمانت کا مطالبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت اداکاروں کی جگہ نہیں لے گی۔