1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالی وڈ کی چین کے ساتھ مشترکہ فلم سازی

23 اپریل 2012

ٹائی ٹینک اور اواتار جیسی مایہ ناز فلموں کے خالق ڈائریکٹر جیمز کیمرون کا کہنا ہے کہ وہ چین میں مشترکہ بنیادوں پر فلمسازی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

تصویر: dapd

ہالی وڈ کی نظریں اب چین کے اس شاہ خرچ طبقے پر مرکوز ہیں، جو پائریٹڈ فلمیں دیکھنے کی بجائے سینما ہالز میں فلمیں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ پائریسی اور سینسرشپ جیسی مشکلات کے باوجود چین میں ہالی وڈ کی دلچسپی اس کے مالیاتی طور پر پُرکشش ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی وجہ سے جیمز کمیرون ان دنوں چین کے دورے پر ہیں۔ بیجنگ میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، ‘‘ہم بہت سنجیدگی سے چین کے ساتھ مشترکہ فلمسازی کا سوچ رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ انہیں ہم سے کیا درکار ہے؟‘‘

مشترکہ فلمسازی کی راہ میں حائل مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ‘‘اگر بات بن گئی تو اس کا چین میں فلمی صنعت کو بہت فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں اواتار جیسی فلمیں بنانی ہوئیں، جو مکمل طور پر اسٹوڈیو کے اندر بنی ہیں تو ہمیں یہاں کے قدرتی نظاروں کی ضرورت نہیں۔’’ ان کے بقول ایسی فلموں کی ورچویل پروڈکشن اور سہ جہتی پروڈکشن کے لیے انفراسٹرکچر چین لایا جائے گا اور اس طرح چین کی فلمی صنعت کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا تبادلہ ممکن ہو سکےگا۔

تصویر: AP

جیمز کیمرون کا کہنا تھا کہ وہ سینسر کی صورتحال کا بھی جائزہ لیں گے۔‘‘ ان تمام امور سے سیدھے سیدھے نمٹنا ہوگا کہ یہ اسکرپٹ ہے اور ہم یہ کرنے جارہے ہیں پھر بھی کوئی اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو میں تخلیقی انداز سے دیکھوں گا کہ اسے جگہ دی جاسکتی ہے یا اسے اسکرپٹ سے خارج کیا جائے۔’’

روئٹرز سے بات چیت میں امریکی ہدایتکار نے کہا کہ ان کے چین آنے کا مقصد اسی آئیڈیا سے متعلق زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہے۔

جیمز کیمرون کی فلم اواتار نے چین میں 2010ء کے دوران محض 15 دنوں میں قریب ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔ اگرچہ چین میں محدود تعداد میں ہالی وڈ کی فلمیں سینما پر لگتی ہیں مگر پھر بھی گزشتہ برس چار ارب ڈالر سے زائد کا بزنس ہوا۔ رواں سال چینی نائب صدر شی جن پنگ کے دورہء امریکہ میں پریمیئم طرز کی فلموں یعنی سہ جہتی اور IMAX طرز کی فلموں کو چین کے لیے مختص بیرونی فلموں کے کوٹے کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا تھا۔

sk/ ia Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں