ہانگ کانگ: 'انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ غیرقانونی ہوسکتا ہے'
3 اگست 2020
ہانگ کانگ کی بار ایسو سی ایشن نے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ میں تاخیر کے لیے ایمرجنسی قانون کا نفاذ غیر قانونی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
اشتہار
ہانگ کانگ شہر کی بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کا مقننہ کاؤنسل کے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ ثبوتوں کے لحاظ سے غیر قانونی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ہانگ کانگ کی لجسلیٹیو کاؤنسل کے انتخابات اس برس چھ ستمبر میں ہونے تھے تاہم گزشتہ جمعے کو مقامی رہنما نے کورونا وائرس کے مد نظر انتخابات کو ایک برس کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ہانگ کانگ میں وکلا کی تنظیم کا کہنا ہے کہ "حکومت کا فیصلہ قانون اور ثبوت کے اعتبار سے شدید قسم کے شکوک و شبہات کے دائرے میں آتا ہے۔" اتوار کے روز تنظیم نے کہا کہ عالمی ماہرین نے بھی کووڈ 19 کے بہانے انتخابات کو اتنی طویل مدت تک کے لیے ملتوی کرنے کے فیصلے کو درست نہیں مانا ہے۔ بیان میں کہا گيا، "حکومت تسلی بخش طریقے سے یہ بتانے میں ناکام رہی ہے کہ انتخابات کو چند ہفتوں یا مہینوں کی مختصر مدت کے بجائے ، ایک برس تک کے لیے کیوں ملتوی کیا گیا ہے۔"
جمعہ 31 جولائي کوہانگ کانگ کی رہنما کیری لیم نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن کورونا کے چیلنج کو دیکھتے ہوئے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ انہوں نے اس برس چھ ستمبر کو انتخابات کرانے کے بجائے آئندہ برس پانچ ستمبر کو انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان کیا۔ محترمہ لیم نے کہا کہ چونکہ ہانگ کانگ لیجسلیٹیو کاؤنسل کی معیاد ختم ہوگئی ہے اس لیے نئی مقننہ کے منتخب ہونے تک خطے کی قانون سازی کا اختیار چینی پارلیمان کو حاصل رہے گا۔
ہانگ کانگ بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ان اقدام سے شہر کی انتظامیہ نے ہانگ کانگ کے اپنے چھوٹے سے خود مختار آئین کی دفعات کو بے اثر کرنے کے لیے بیجنگ کو باقاعدہ طور پر دعوت دیدی ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے عالمی ماہرین کے ان بیانات کا بھی حوالہ دیا جس میں حکومت سے کہا گيا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کے لیے کورونا کا سہارا نہ لیا جائے۔
ایغوروں کے حق میں مظاہرہ، ہانگ کانگ پولیس کا طاقت کا استعمال
01:54
ہانگ کانگ میں انتخابات کے ملتوی کرنے کے حکومت کے فیصلے سے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگيا ہے۔ جیسے ہی ہانگ کانگ کی چیف اگزیکیٹیو کیم لیم نے اس کا اعلان کیا، ہانگ کانگ کے بائیس منتخب اراکین کے ایک گروپ نے ایک بیان میں حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ شہریوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم رکھنے کے لیے کورونا کا بہانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل حکام نے جمہوری حقوق کے لیے سرگرم بارہ نمایاں شخصیات کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ انتظامیہ کے مطابق یہ افراد ہانگ کانگ سمیت چین کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس فیصلے کو ہانگ کانگ میں جمہوری آزادیوں کے لیے متحرک حلقوں کے لیے ایک دھچکے کے طور پہ دیکھا گیا کیونکہ یہ امیدوار انتخابات میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے خاصے پرامید تھے۔
ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے متنازعہ سکیورٹی قانون کے نفاذ پر کئی ممالک نے سخت تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ان ممالک کے مطابق ہانگ کانگ کا نیا سکیورٹی قانون انصاف کے تقاضوں اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔ حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا ہانگ کانگ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی اور انٹیلیجس شیئر کرنے سےمتعلق معاہدہ معطل کرچکے ہیں۔ جمعے کو جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا تھا کہ ان کا ملک بھی ہانگ کانگ کے ساتھ یہ معاہدہ جلد ہی معطل کر دے گا۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔