ہانگ کانگ: انتظامیہ کا مظاہرین کو انتباہ
5 اکتوبر 2014ہفتے کے روز ایک بصری پیغام میں چین کے خصوصی انتظامی علاقے کے سربراہ نے کہا کہ پیر تک حکومت کے مرکزی دفاتر تک جانے والے راستے کھل جانا چاہییں تاکہ سرکاری افسران کام پر واپس لوٹ سکیں اور اسکول بھی دوبارہ کھل سکیں۔
کئی ہفتوں سے ہانگ کانگ میں مظاہرے جاری ہیں۔ یہ مظاہرے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکیٹو کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کا چین کی حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہانگ کانگ کے شہریوں کو سن دو ہزار سترہ میں شہر کا سربراہ جمہوری انداز سے چننے کی اجازت دی جائے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے ایک فیصلے کے مطابق شہریوں کے براہ راست ووٹوں کے ذریعے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکیٹو کا انتخابات تو عمل میں لایا جائے گا تاہم جو امیدوار ان انتخابات میں حصہ لیں گے ان کی حتمی منظوری چینی حکومت کرے گی۔
ہانگ کانگ کے طالب علم اور ’’آکیوپائی سینٹرل‘‘ نامی جمہوریت نواز تنظیم چینی حکومت کے فیصلے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں جس نے ایشیا کے اس اقتصادی مرکز میں کاروبار اور روز مرہ کی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
لیونگ چن یِنگ کے انتباہ سے قبل مظاہرین اور حکومت کے حامیوں میں جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے نتیجے میں کم از کم اٹھارہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
''آکیوپائی سینٹرل‘‘ کے رہنما بینی ٹائی کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ مظاہرین پر حملہ کرنے والوں کا تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے ہو سکتا ہے۔
ہانگ کانگ میں جاری ان مظاہروں کو چین کی حکومت کے لیے انیس سو اسی کی دہائی میں تیانمن اسکوائر کی تحریک کے بعد سب سے بڑا امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔ بیجنگ نے تاحال ہانگ کانگ کے مظاہروں کے حوالے سے براہ راست بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ چینی حکومت اپنا فیصلہ تبدیل کر لے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چاہے ان مظاہروں کا نتیجہ جو بھی نکلے، ہانگ کانگ کے شہریوں نے اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے کر کے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ان کی آواز کو وقتی طور پر تو دبایا جا سکتا ہے لیکن زیادہ عرصے کے لیے ان کے مطالبات کر نظر انداز کرنا آسان نہ ہوگا۔