’امریکا چینی حکام پر نئی پابندیاں عائد کرنے جا رہا ہے‘
7 دسمبر 2020
امریکا، ہانگ کانگ کے منتخب قانون سازوں کو بیجنگ کی جانب سے نااہل قرار دینے میں چینی حکام کے مبینہ کردار کی وجہ سے کم از کم ایک درجن حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
اشتہار
چین سے متعلق امریکی اقدامات سے وابستہ ایک اعلی امریکی افسر سمیت تین مختلف ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقتدار کے آخری ہفتوں کے دوران بھی بیجنگ پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی کے تحت چینی کمیونسٹ پارٹی کے افسران کے خلاف پیر کے روز کارروائی کا اعلان کرسکتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ اوروائٹ ہاؤس نے درخواست کے باوجود ان خبروں پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
دو امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی پارلیمان کے حکام یا نیشنل پیپلز کانگریس اور سی سی پی کے اراکین سمیت چودہ افراد کے خلاف پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے تحت ان کے اثاثوں کو منجمد کرنے اور مالیاتی پابندیوں جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ایک امریکی افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر،بتایا کہ متعدد افراد کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ چینی امور سے وابستہ ایک دیگر افسر کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی ان میں ہانگ کانگ کے بعض حکام اور چینی حکام دونوں ہی شامل ہوسکتے ہیں۔ ذرائع نے ان لوگوں کے نام یا ان کے عہدوں کی وضاحت نہیں کی جن کے خلاف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ دو ذرائع کا کہنا تھا کہ پابندیوں کا اعلان اس ہفتے کے اواخر تک موخر کیا جاسکتا ہے۔
چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست
02:30
چین کی وزارت خارجہ نے ان خبروں پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
بیجنگ نے اس سے قبل ہانگ کانگ سے متعلق چینی اقدامات کی وجہ سے امریکا کی جانب عائد کی جانے والی پابندیوں کو چین کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔
اشتہار
تعطل میں اضافہ
گزشتہ اکتوبر میں امریکی محکمہ خارجہ نے ہانگ کانگ میں جمہوریت نوازوں کے خلاف کارروائی میں ملوث چینی حکام کے ساتھ کسی بھی طرح کی تجارت نہ کرنے کی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو وارننگ دی تھی اور کہا تھا کہ کریک ڈاؤن میں شامل حکام کو جلد ہی سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
امریکا، ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکیوٹیو کیری لیم، وہاں کے موجودہ اور سابق پولیس سربراہوں اور چوٹی کے دیگر افسران پر پہلے ہی پابندیاں عائد کرچکا ہے، جو امریکا کے بقول جمہوریت نواز تحریک اور آزادی کو کچلنے میں ملوث رہے ہیں۔
چین کی پارلیمان کی جانب سے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہانگ کانگ کے حکام کو دیے گئے نئے اختیارات کے بعد بیجنگ کی حمایت یافتہ ہانگ کانگ حکومت نے گذشتہ ماہ چار اپوزیشن لیڈروں کواسمبلی سے برطرف کردیا تھا۔ اس واقعے کے بعد جمہوریت نواز اپوزیشن اراکین اسمبلی نے بھی اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے۔
دنیا میں سفارت کاری کے سب سے بڑے نیٹ ورک کن ممالک کے ہیں
دنیا میں اقتصادی ترقی اور سیاسی اثر و رسوخ قائم رکھنے میں سفارت کاری اہم ترین جزو تصور کی جاتی ہے۔ دیکھیے سفارت کاری میں کون سے ممالک سرفہرست ہیں، پاکستان اور بھارت کے دنیا بھر میں کتنے سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Harnik
1۔ چین
لوی انسٹی ٹیوٹ کے مرتب کردہ عالمی سفارت کاری انڈیکس کے مطابق چین اس ضمن میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دنیا بھر میں چینی سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 276 ہے۔ چین نے دنیا کے 169 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ مختلف ممالک میں چینی قونصل خانوں کی تعداد 98 ہے جب کہ مستقل مشنز کی تعداد آٹھ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
2۔ امریکا
امریکا دنیا بھر میں تعینات 273 سفارت کاروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکا کے دنیا کے 168 ممالک میں سفارت خانے موجود ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 88 ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ اور دیگر اہم جگہوں پر تعینات مستقل امریکی سفارتی مشنز کی تعداد نو ہے۔
تصویر: AFP/B. Smialowski
3۔ فرانس
فرانس اس عالمی انڈیکس میں 267 سفارتی مشنز کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک فرانس کے 161 سفارت خانے، 89 قونص خانے، 15 مستقل سفارتی مشنز اور دو دیگر سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Valat
4۔ جاپان
جاپان نے دنیا کے 151 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں اور مختلف ممالک کے 65 شہروں میں اس کے قونصل خانے بھی موجود ہیں۔ جاپان کے مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 10 ہے اور دیگر سفارتی نمائندوں کی تعداد 21 ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں جاپان کے سفارتی مشنز کی تعداد 247 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/I. Kalnins
5۔ روس
روس 242 سفارتی مشنز کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 144 ممالک میں روسی سفارت خانے ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 85 ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kremlin Pool
6۔ ترکی
مجموعی طور پر 234 سفارتی مشنز کے ساتھ ترکی سفارت کاری کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 140 ممالک میں ترکی کے سفارت خانے قائم ہیں اور قونصل خانوں کی تعداد 80 ہے۔ ترکی کے 12 مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/K. Ozer
7۔ جرمنی
یورپ کی مضبوط ترین معیشت کے حامل ملک جرمنی نے دنیا کے 150 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ جرمن قونصل خانوں کی مجوعی تعداد 61 اور مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 11 ہے۔ جرمنی کے سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 224 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
8۔ برازیل
لاطینی امریکا کی ابھرتی معیشت برازیل کے بھی دنیا بھر میں 222 سفارتی مشنز ہیں جن میں 138 سفارت خانے، 70 قونصل خانے اور 12 مستقل سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: AFP/S. Lima
9۔ سپین
سپین 215 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 115 ممالک میں ہسپانوی سفارت خانے ہیں اور مختلف ممالک کے شہروں میں قائم ہسپانوی قونصل خانوں کی تعداد 89 ہے۔
تصویر: Fotolia/elxeneize
10۔ اٹلی
اٹلی نے 124 ممالک میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ قونصل خانوں کی تعداد 77 ہے جب کہ آٹھ مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔ دنیا بھر میں اٹلی کے مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 209 ہے۔
تصویر: Imago
11۔ برطانیہ
برطانیہ کے دنیا بھر میں مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 205 ہے جن میں 149 سفارت خانے، 44 قونصل خانے، نو مستقل سفارتی مشنز اور تین دیگر نوعیت کے سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: imago/ITAR-TASS/S. Konkov
12۔ بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت مجموعی طور پر 186 سفارتی مشنز کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں بارہویں اور ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت نے 123 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ دنیا بھر میں بھارتی قونصل خانوں کی تعداد 54 ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور آسیان کے لیے خصوصی سفارتی مشن سمیت بھارت کے دنیا میں 5 مستقل سفارتی مشنز بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
28۔ پاکستان
پاکستان مجموعی طور پر 117 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں 28ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے دنیا کے 85 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ پاکستانی قونصل خانوں کی تعداد 30 ہے۔ علاوہ ازیں نیویارک اور جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے مستقل پاکستانی سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
13 تصاویر1 | 13
اس صورت حال پر مغرب نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے والے آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور امریکا پر مشتمل 'فائیو آئیز‘ گروپ نے گزشتہ مہینے کہا تھا کہ چین کا یہ اقدام ناقدین کو خاموش کرنے کی مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے اور بیجنگ سے اپنے فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی مشیر رابرٹ او برائن نے نومبر میں کہا تھا کہ ہانگ کانگ کے قانون سازوں کی برطرفی 'ایک ملک، دو نظام‘ فارمولا کا ثبوت ہے جس کے تحت ہانگ کانگ کی خودمختاری ختم کردی گئی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے امریکا کی جانب سے مزید پابندیوں کا وعدہ کیا تھا۔
امریکا نے گزشتہ ماہ ہانگ کانگ حکومت میں شامل چار مزید چینی حکام اور ایک سکیورٹی ادارے پر پابندیاں عائد کردی تھی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہانگ کانگ، امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لیے چین کے ساتھ سب سے مشکل چیلنجز میں سے ایک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں سرفہرست رہے گا۔
20جنوری کو امریکا کے نئے صدر کا عہدہ سنبھالنے والے جو بائیڈن کہتے رہے ہیں کہ چین اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے معاملے میں وہ ٹرمپ سے زیادہ سخت موقف اختیار کریں گے۔
ج ا / (روئٹرز)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔