ہانگ کانگ: جمہوریت کی حمایت میں پوری اپوزیشن مستعفی
12 نومبر 2020
ہانگ کانگ میں قانون سازوں کو کسی عدالتی چارہ جوئی کے بغیر برطرف کردینے کے ایک نئے متنازعہ قانون کی مخالفت میں اپوزیشن کے تمام 15 اراکین نے لیجسلیٹیو کونسل سے استعفی دے دیا ہے۔
اشتہار
اپوزیشن قانون سازوں نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب بدھ کے روز ہانگ کانگ لیجسلیٹیو کونسل سے ان چار اراکین کو برطرف کردیا گیا جو جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کی تائید کرتے رہے ہیں۔
جمہوریت نواز گروپ کے کنوینر وو چی۔وائی نے ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن رہنماوں کے مستعفی ہوجانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا”آج ہم اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے جا رہے ہیں کیوں کہ مرکزی حکومت نے بے رحمی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے ہمارے رفقائے کار، ہمارے ساتھیوں کونا اہل قرار دے دیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ”گوکہ ہمیں مستقبل میں جمہوریت کے لیے جنگ میں بہت سارے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ہم اپنی لڑائی جاری رکھیں گے، ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔"
وو نے بتایا کہ اپوزیشن کے تمام اراکین جمعرات کے روز اپنے استعفے پیش کردیں گے۔
اشتہار
کن قانون سازوں کو نا اہل قراردیا گیا؟
ہانگ کانگ کی سٹی ایگزیکیوٹیو نے چار قانون سازوں کو 'قومی سلامتی‘ کی وجوہات کی بنا پر نااہل قرار دے دیا ہے۔
قانون سازوں کو نااہل قراردینے کا فیصلہ چینی حکومت کی جانب سے منظور کردہ اس قانون کے فوراً بعد کیا گیا جس کی رو سے حکومت عدالتی چارہ جوئی کے بغیر ہی کسی قانون ساز کو برطرف کرسکتی ہے۔
برطرف کیے جانے والے قانون سازوں میں جمہوریت نواز ایلوین یونگ، کووک کا۔کی، کینیتھ لیونگ اور ڈینس کووک شامل ہیں۔
مضحکہ خیز
سٹی گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ ان چاروں افراد سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ حکومت نے تاہم اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ دوسری طرف کووک نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس الزام کو 'مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔
کووک کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں 1997میں منظور کردہ'ایک ملک۔ دو نظام‘ قانون کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اس قانون میں آئینی ضابطوں کے ساتھ ہانگ کانگ کی خود مختاری کی ضمانت دی گئی تھی لیکن اب جو کوئی بھی قانون ساز، چیف ایگزیکیوٹیو کو ناپسند ہوگا، وہ اسے نکال باہر کریں گی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جو آئینی ضابطے حاصل تھے وہ اب ختم ہوچکے ہیں۔"
چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست
02:30
کووک تاہم اب بھی ہانگ کانگ کے عوام سے پرامید ہیں۔ ”ہم ایک انتہائی سخت دور سے گزر رہے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ آنے والے دن اور بھی مشکل اور مصائب سے پر ہوں گے... تاہم میں اب بھی ہانگ کانگ کے عوام کے دل و دماغ میں جمہوریت کے تئیں امنگ اور جنون کو محسوس کرسکتا ہوں۔ قانونی کی حکمرانی کے لیے ان کی امنگیں، آزادی کے لیے ان کی امنگیں، جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیزیں ختم نہیں ہونے والی ہیں۔"
دریں اثنا ہانگ کانگ کی رہنما کیری لیم کا کہنا ہے کہ اراکین کو نا اہل قرار دیا جانا 'آئینی، قانونی، منطقی اور ضروری تھا۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نئے قوانین کی نکتہ چینی کی ہے۔ بین الاقوامی حقوق انسانی کے ادارے کا کہنا ہے کہ ”یہ اپنے ناقدین کو کسی بھی طرح سے خاموش کردینے کی چین کی مرکزی حکومت کی مہم کی ایک اور مثال ہے۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیا بحرالکاہل کی علاقائی ڈائریکٹر یامینی مشرا کا کہنا تھا” ہانگ کانگ نے ایک بار پھر اپنے قوانین اور اپنے قانون سازیہ کو نظر انداز کرنے کے لیے بیجنگ کو اجازت دے دی۔ چینی حکومت کے بنائے گئے قوانین کو یک طرفہ طورپر نافذ کرنے کا فیصلہ قانون کی حکمرانی کا مذاق ہے۔"
کیا ہے نیا قانون؟
نئے قانون کی رو سے کسی بھی ایسے قانون ساز کو برطرف کیا جاسکتا ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس ہو، ہانگ کانگ کی آزادی کی حمایت کرے، ہانگ کانگ پر چین کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کرے یا بیرونی طاقتو ں سے مداخلت کرنے کی اپیل کرے۔
اس قانون کو چین کے نیشنل پیپلز کانگریس اسٹینڈنگ کمیٹی کی منگل اور بدھ کے روز منعقدہ میٹنگ میں منظوری دی گئی تھی۔
70رکنی ہانگ کانگ لیجسلیٹو کونسل کے اپوزیشن اراکین نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی بھی جمہوریت نواز قانون ساز کو نااہل قرار دیا گیا تووہ اجتماعی طورپر استعفی دے دیں گے۔
ج ا /ص ز (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔