ہانگ کانگ میں انتخابات کو ملتوی کیے جانے کے خلاف سینکڑوں افرادسڑکوں پر نکل آئے جبکہ پولیس نے تقریباً 300 مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔
اشتہار
ہانگ کانگ کے رہنما کورونا وائرس کی وبا کو انتخابات میں تاخیر کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بیجنگ کے دباو میں کیا گیا ہے۔
اتوار کے روز بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ انتخابات میں تاخیر کیے جانے سے ناراض تھے۔ پولیس نے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران تقریباً 300 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
محکمہ پولیس نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بیشتر مظاہرین کو 'غیر قانونی طورپر جمع ہونے‘ کے الزام کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں حقوق انسانی کے لیے سرگرم دو اہم رہنما بھی شامل ہیں۔ ان میں سول ہیومن رائٹس فرنٹ گروپ کے فیگو چان اور بزرگ قانون سازلیونگ کوک ہنگ، جو 'لمبے بالوں‘ کے نام سے معروف ہیں، شامل ہیں۔ آزادی کے حق میں نعرے لگانے پر ایک خاتون کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ مذکورہ خاتون نے ہانگ کانگ کے قومی سلامتی قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔
ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ اخبار کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر پیپر (سیاہ مرچ) بالس داغے۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
10 تصاویر1 | 10
ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکیوٹیو کیری لیم نے اپنے خصوصی ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے گزشتہ جولائی میں انتخابات کو اگلے سال تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔ انہوں نے اس کا سبب کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ بتایا تھا۔
تاہم ہانگ کانگ میں اس سال جنوری سے اب تک کورونا وائرس کے صرف 4800 کیسز سامنے آئے ہیں جو کہ دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ کی بیجنگ نواز انتظامیہ دراصل اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ جمہوریت نواز اپوزیشن کو امید ہے کہ اگر بروقت انتخابات کرائے جائیں تو وہ ہانگ کانگ لیجس لیٹیو کاونسل میں متعدد سیٹیں جیت سکتی ہے۔
کاونسل کی نصف سیٹوں کے لیے براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ دیگر نصف سیٹوں پر بالعموم ایسے افراد کو نامزد کیا جاتا ہے جو چینی حکومت کے وفادار ہیں۔
خیال رہے کہ ہانگ کانگ میں نئے سکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد سے متعدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔ اس نئے سکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد متعدد ملکوں نے ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات ختم کرلیے ہیں۔