چین کی طرف سے نافذ کیے گئے ایک سخت قانون کے تحت انسانی حقوق کے درجنوں ممتاز کارکنوں کو 10 سال تک قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اس فیصلے کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔
اشتہار
ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ نے منگل کو جمہوریت حامی 45 کارکنوں کو قومی سلامتی کے ایک تاریخی مقدمے میں 10 سال تک قید کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت ہو رہی ہے۔
یہ بیجنگ کے نافذ کردہ ایک سخت قانون کے تحت ہانگ کانگ کا قومی سلامتی کا سب سے بڑا مقدمہ تھا، جس نے ایک بار ترقی پذیر جمہوریت نواز تحریک کو کچل دیا۔ مذکورہ تحریک کے روح رواں سمجھے جانے والے قانونی اسکالر بینی تائی کو طویل ترین سزا سنائی گئی۔
ان کارکنوں کے خلاف 2021 میں غیر سرکاری پرائمری انتخابات میں ان کے کردار پر 2020 کے قومی سلامتی کے قانون کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔
ان پر ہانگ کانگ کی حکومت کو مفلوج کرنے اور شہر کے رہنما کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کا الزام تھا۔ انہوں نے یا تو اعتراف جرم کیا یا انہیں حکومت سے منظور شدہ تین ججوں نے بغاوت کی سازش کا مجرم پایا۔
آسٹریلیا کو "شدید تشویش"
آسٹریلیا نے کہا کہ وہ آسٹریلوی شہری گورڈن این جی سمیت جمہوریت کے حامی کارکنوں کو متنازع قومی سلامتی قانون کے تحت سزا سنائے جانے پر "شدید فکر مند" ہے۔
وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ آسٹریلیا کو "قومی سلامتی قانون کے وسیع پیمانے پر اطلاق" کے حوالے سے "سخت اعتراض" ہے۔
امریکی رکن کانگریس اور ایمنسٹی کی جانب سے تنقید
چین پر امریکی کانگریس کی کمیٹی کے چیئرمین کرس اسمتھ نے ان کارکنوں کی گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔
اسمتھ نے ایک بیان میں کہا،"اسی ہفتے ہانگ کانگ حکومت امریکی سرمایہ کاری کی کوشش کررہی ہے اور اسی دوران اس نے جمہوریت نوازوں کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے انہیں جیل میں ڈال دیا۔"
انہوں نے کہا "چینی کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ میں اپنے جبر کے لیے امریکی مالیاتی اداروں سے مدد مانگ رہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا،"بائیڈن انتظامیہ پر لازم ہے کہ ہانگ کانگ میں سرمایہ کاری کے بجائے کارکنوں کو جیل میں ڈالنے کے فیصلے میں شامل ججوں، پولیس اور پراسیکیوٹرز پر پابندیاں عائد کرے۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں چین کی ڈائریکٹر، سارہ بروکس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ہم ایک ایسے دور میں چلے گئے ہیں جہاں (ہانگ کانگ میں) صحت مند شہری بحث، عوامی تبادلہ خیال، معمول کے رابطوں اور سول سوسائٹیوں اور حکومتوں کے درمیان معمولی اختلافات کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کو دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔"
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔