ہانگ کانگ میں حکومت مخالف مظاہروں کے ایک سال مکمل ہونے پر منگل کی رات کو بہت بڑا مظاہرہ ہوا، دوسری طرف پولیس نے قانون شکنی کے الزام میں درجنوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔
اشتہار
آٹھ سے زائد افراد کے یکجا ہونے پر پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین نے سڑکیں جام کردیں اور انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے پیپر سے بھرے شیل داغے جبکہ 53 لوگوں کو گرفتار بھی کرلیا۔
ہانگ کانگ پولیس نے بتایا کہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے آٹھ افراد سے زیادہ کے جمع ہونے پر پابندی عائد ہے لیکن بدھ کے روز مظاہرین اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمع ہوگئے لہذا انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کو کارروائی کرنی پڑی اور 53 لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جن میں 36 مرد اور 17خواتین شامل ہیں۔
نیم خود مختار شہرہانگ کانگ کے چیف ایگزیکیوٹیو کیری لیم نے کہا ”ہانگ کانگ اس طرح کی بدامنی کو برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ ہانگ کانگ کے عوام ایک مستحکم اور پرامن ماحول چاہتے ہیں تاکہ وہ خوش و خرم رہ کر کام کرسکیں۔" انہوں نے مزید کہا ”ہر شخص کو بشمول ہانگ کانگ کی حکومت کو سبق سیکھنا چاہیے۔"
مظاہرین ”ہانگ کانگ کی آزادی ہی واحد راستہ ہے" اور ”ہم آخری دم تک لڑیں گے" جیسے نعرے لگارہے تھے۔ وہ پولیس کی طرف سے طاقت کے استعمال نیز پانچ برس تک جیل کی سزا کی وارننگ کے باوجود مارچ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
مظاہرین لنچ کے اوقات میں بھی شاپنگ مالز کے پاس جمع ہوگئے۔ انہوں نے تختیاں اٹھارکھی تھیں جن پر ”ہانگ کانگ کو آزا د کرو" جیسے نعرے درج تھے۔ وہ احتجاجی نغمے بھی گارہے تھے۔ اس سے قبل دن میں پولیس نے ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے مدنظر بعض سڑکیں بند کردی تھیں۔
خیال رہے کہ مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ برس 9 جون کو شروع ہوا تھا، جب دس لاکھ سے زیادہ افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس کے بعد کے دنوں میں بھی زبردست مظاہرے ہوتے رہے ہیں ان میں سے بعض مظاہرے پرتشدد صورت بھی اختیار کرگئے تھے۔
گزشتہ برس 9 جون کو عوامی مظاہروں کا انعقاد کرانے والی تنظیم سول ہیومن رائٹس فرنٹ نے منگل کے روز اپنے فیس بک پیج پر لکھا”گزشتہ برس 9 جون کو ہونے والا عوامی مظاہرہ ہانگ کانگ کے لوگوں کی اجتماعی یاد داشت پر نقش ہوچکا ہے۔ یہ ہمارے پیارے شہر کے دفاع کے لیے ہماری اجتماعیت کے آغاز کی علامت بھی ہے۔"
آنے والے دنوں میں اس طرح کے مزید مظاہرے منعقد کیے جائیں گے۔
گزشتہ برس مظاہرے چین کے اس قانون کے خلاف شروع ہوئے تھے جو بیجنگ کو ہانگ کانگ کے لوگوں کو ملک بدر کرکے چین بھیجنے کا اختیار دیتا ہے۔ مظاہرین اب چین کی طرف سے نافذ کردہ اس نئے سیکورٹی قانون کی بھی مخالفت کررہے ہیں جو بظاہر تخریب کاری، بغاوت، دہشت گردی اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کااستعمال چینی حکومت سے اختلاف اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس سے 'ایک ملک دو نظام‘ کے فریم ورک کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ نظام 1997 میں ہانگ کانگ کو برطانیہ کی طرف سے چین کے حوالے کیے جانے کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔
گوکہ مجوزہ قانون کی تفصیلات یا اس کے نفاذ کے طریقہ کار کے بارے میں ابھی زیادہ نہیں بتایا گیا ہے اور بیجنگ اور ہانگ کانگ میں حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے لوگوں کو تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اس قانون کا استعمال ان چند لوگوں کے خلاف کیا جائے گا جو شورش پیدا کرتے ہیں۔
ہانگ کانگ اور مکاو کے امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر زانگ زیاو منگ نے ان مظاہروں کے لیے غیر ملکی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ چین اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنے اور غیر ملکی مداخلت کو پوری طرح روک دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران تقریباً 9000 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور 500 سے زیادہ افراد کے خلاف فساد پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے آغاز کے بعد مظاہروں میں تھوڑی کمی آگئی تھی لیکن نئے سیکورٹی قانون کے اعلان کے بعد مظاہروں میں ایک بار پھر شدت پیدا ہوگئی ہے۔
1989کے تیانانمن اسکوائر پولیس کارروائی کی برسی کے موقع پر 4 جون کو لاکھو ں افراد پولیس کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ج ا / ص ز (ایجنسیاں)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔