ہانگ کانگ میں احتجاج کا سلسلہ جاری
30 ستمبر 2014سیاسی اصلاحات کی خاطر سرگرم اسٹوڈنٹ لیڈران نے دھمکی دی ہے کہ اگر بدھ تک ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ اپنے احتجاج کا سلسلہ مزید وسیع کر دیں گے۔ ان کا اصرار ہے کہ ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ مستعفی ہو جائیں اور چین کے اس خود مختار علاقے میں 2017ء میں ہونے والے انتخابات میں عوام کو اپنا رہنما منتخب کرنے کے لیے ’حقیقی اختیار‘ دیا جائے۔ تاہم چینی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سابق برطانوی نو آبادی میں پہلی مرتبہ ہونے والے جمہوری الیکشن میں امیدواروں کا حتمی فیصلہ بیجنگ حکومت کی مرضی سے ہی ہو گا۔
دو ہفتے قبل شروع ہونے والے ان مظاہروں میں کل بروز پیر اس وقت شدت آ گئی تھی، جب پولیس نے اہم اقتصادی مراکز پر دھرنا دیے ہوئے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سڑکوں نکلنے والوں میں ہائی اسکول کے طلباء بھی شامل ہوگئے، جس کے نتیجے میں چین نواز انتظامیہ نے پولیس کو واپس بلانے کا اعلان کر دیا تھا۔
گزشتہ روز کی طرح آج منگل کو بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہانگ کانگ کے اہم شاپنگ سینٹرز کے علاوہ کازوے بے کے اہم تجارتی مراکز میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی دفاتر کے باہر بھی لوگ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ رات ہزاروں افراد مظاہرین نے لیونگ چُن یِنگ کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ اس دوران مظاہرین پر امن رہے۔
گزشتہ دو روز سے جاری ان مظاہروں کی وجہ سے روزمرہ زندگی بری طرح مفلوج ہو رہی ہے۔ متعدد علاقوں میں کاروباری مراکز اور اسکولوں کی بندش کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ منگل کی صبح بیجنگ نواز چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر گھروں کو لوٹ جائیں۔
’اوکوپائی سینٹرل‘ نامی گراس روٹ لیول کے ایک گروپ نے اس احتجاج کی کال دی تھی۔ اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لیونگ چُن یَنگ مستعفی ہوتے ہیں تو احتجاجی سلسلہ وقتی طور پر روک دیا جائے گا اور آئندہ حکمت عملی کے بارے میں سوچا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ چُن یَنگ کا اپنے عہدے سے الگ ہونا، اس بات کا ثبوت ہو گا کہ حکومت نے اپنا رویہ بدلا ہے اور وہ مستقبل میں مذاکرات کے لیے تیار ہے۔