1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ میں سخت پابندیوں کے تحت مظاہرین کی واپسی

27 مارچ 2023

مظاہرین کو صرف حکومت کے منظور شدہ بینرز ہی اٹھانے کی اجازت دی گئی اور انہیں ہر قسم کی ’غداری‘ کی کارروائی سے روک دیا گیا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق قانون کی وجہ سے آزادی اظہار پر بندشیں ہیں۔

Hongkong | Genehmigte Proteste gegen ein Projekt zur Landgewinnung
تصویر: Tyrone Siu/REUTERS

اتوار 26 مارچ کو کئی برس بعد ہانگ کانگ کی سڑکوں پر درجنوں مظاہرین کو احتجاج کرتے ہوئے دوبارہ دیکھا گیا۔ بیجنگ نے سن 2020 میں کورونا وبا کے دوران ہی قومی سلامتی سے متعلق اپنا سخت قانون نافذ کیا تھا، جس کے بعد سے شہر میں یہ قانونی طور پر درست مظاہروں میں سے ایک تھا۔

ہانگ کانگ، چین سپردگی کے پچیس سال مکمل

مظاہرین مشرقی تسیونگ کوان او ضلع میں جمع ہوئے، جو زمین کی واپسی سے متعلق ایک متنازعہ قانون اور کوڑا کرکٹ پروسیسنگ کے ایک پروجیکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

چین میں پریس کی آزادی مسلسل زوال پذیر، رپورٹ

مظاہرین نے سکیورٹی حکام کی جانب سے منظور شدہ بینرز اٹھا رکھے تھے اور ایسے نعرے لگائے جس سے ’’غداری‘‘ یا حکومت کے خلاف بغاوت کا اظہار نہ ہو سکے۔ شہر کی پولیس نے مظاہرین کو اس شرط پر جمع ہونے کی اجازت دی تھی کہ وہ قومی سلامتی سے متعلق قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔

ہانگ کانگ: آزادی پسند کارکن ایڈورڈ لیونگ جیل سے رہا

مظاہرین نئی پابندیوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟

احتجاج کے لیے صرف 100 مظاہرین کو ہی جمع ہونے کی اجازت دی گئی تھی، اور اتوار کے روز ہونے والے اس مظاہرے میں تقریبا 50  افراد سڑکوں پر جمع ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے اس سرگرمی کی واپسی کا خیرمقدم کیا، تاہم ایسے مارچ کے خلاف سخت اقدامات پر تنقید بھی کی۔

 مظاہرین میں سے ایک جیمز اوکینڈن اپنے تین بچوں کے ساتھ مارچ کرنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ہمیں مزید آزادانہ احتجاجی کلچر کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب تو پہلے سے ترتیب دیا گیا ہے اور گنتی بھی محدود کر دی گئی۔ اس سے تو مظاہرے کا کلچر تباہ ہو جائے گا اور یقینی طور پر لوگوں کی شمولیت کو روک دے گا۔‘‘

رواں برس کے اوائل میں کورونا وائرس سے متعلق عائد سخت پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد سے اتوار کے روز احتجاج کی پہلی بار اجازت دی گئی تھیتصویر: Tyrone Siu/REUTERS

حکام نے مظاہرین پر جو دیگر پابندیاں عائد کی تھیں اس میں شرکاء کو اپنے گلے میں نمبر والے بیجز پہنانا بھی شامل تھا۔ پولیس نے منتظمین کے نام اپنے مکتوب میں کہا کہ مظاہرین کی شناخت کرنا ضروری ہے، تاکہ مارچ کے دوران کسی بھی طرح کی ’’قانون شکنی‘‘کو روکا جا سکے۔

مظاہرین پر ماسک پہننے کی بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی، اور ’’معقول عذر‘‘ کے بغیر اس کی اجازت نہیں تھی۔ ہانگ کانگ میں سن 2019 کی حکومت مخالف تحریک کے دوران بھی، حکومت نے عوامی اجتماعات میں بھی ماسک پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔

یہ احتجاج انتہائی متوقع کیوں تھا؟

روآں برس کے اوائل میں کورونا وائرس سے متعلق عائد سخت پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد سے اتوار کے روز احتجاج کی پہلی بار اجازت دی گئی تھی۔ وبائی بیماری کے تین برسوں کے دوران احتجاج شاذ و نادر ہی تھے۔

سن 2019 کی احتجاجی تحریک کے سبب بیجنگ نے 2020 ء میں ہانگ کانگ کے لیے قومی سلامتی سے متعلق ایک سخت قانون  متعارف کیا، جس کی وجہ سے بہت سے کارکنوں کو جیل بھیج دیا گیا اور پھر اس طرح احتجاجی سرگرمیوں کو تقریباً خاموش کرا دیا گیا۔

بہت سے لوگوں کو اب اس بات کا خدشہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جو کبھی متحرک شہری تحریک تھی وہ اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

اب سب کی نظریں چار جون اور یکم جولائی پر لگی ہیں، جب باالترتیب تیانمین کی برسی پر اور پھر شہر کو برطانیہ سے چین کے حوالے کیے جانے کی تاریخ کے موقع پر ہانگ کانگ میں مظاہرے ہونے کی توقع ہے۔

واضح رہے کہ تیانمین اسکوائر پر مظاہرین پر قابو پانے کے لیے چار جون کو بیجنگ کے حکام نے فائرنگ  کا حکم دیا تھا، جس میں بہت سے جمہوریت کے حامی مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔ چار جولائی کے روز برطانیہ نے کو ہانگ کانگ کو دوبارہ چین کے حوالے کر دیا تھا۔

ص ز/ ک م (اے پی، روئٹرز)

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست

02:30

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں