ہانگ کانگ میں آج اتوار کے دن بھی ہزارہا مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ سیاہ لباس میں ملبوس ان مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ چیف ایگزیکٹیو کیری لیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. de la Rey
اشتہار
چین کے نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کی انتظامیہ کی طرف سے مشتبہ افراد کو چین کے حوالے کیے جانے سے متعلق ایک متنازعہ قانون سازی کو معطل کرنے کے اعلان کے باوجود ہزاروں مظاہرین نے حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
سیاہ لباس میں ملبوس ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اس قانون سازی کے عمل کو مکمل طور پر منسوخ کیا جائے اور اس کی وجہ سے شروع ہونے والی بدامنی کے نتیجے میں چیف ایگزیکٹیو کیری لیم اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔
بدھ کے دن سکیورٹی فورسز نے اس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کی خاطر طاقت کا استعمال کیا تھا اور ربر کی گولیاں بھی استعمال کی تھیں۔ اس تشدد کی وجہ سے ہانگ کانگ کا اقتصادی مرکز مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ کئی دنوں سے جاری ان مظاہروں کی وجہ سے ابھی تک صورتحال کشیدہ ہی ہے۔
ان مظاہروں کی وجہ سے چین کی حمایت یافتہ چیف ایگزیکٹیو کیری لیم کی انتظامیہ نے ہفتے کی دن ڈرامائی طور پر قانون سازی کے عمل کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ لیم نے حکومتی فورسز کی طرف سے تشدد پر 'گہرے غم اور افسوس‘ کا اظہار کیا تھا تاہم انہوں نے اس حوالے سے معذرت نہیں کی تھی۔
مظاہروں میں شریک سولہ سالہ طالبہ کیتھرین چیونگ نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''کیری لیم نے معافی نہیں مانگی ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ وہ ایک بہت بری رہنما ہیں، جو جھوٹ بولتی ہیں۔ میرا خیال میں وہ اس قانون کے حوالے سے صرف ٹال مٹول کر رہی ہیں۔‘‘
ایک اور طالب علم سینڈی یپ کے بقول، ''ہم اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمیں لیم پر بھروسہ نہیں ہے۔ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزمان کی چین حوالگی کا مجوزہ قانون دراصل ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی اور ایشیا میں اس کے بطور ایک اہم اقتصادی مرکز کی شناخت کے لیے خطرہ ہے۔ ان حالات کی وجہ سے ہانگ کانگ کے کئی بڑے تاجر اپنے کاروبار کو بیرون ممالک منتقل کرنا شروع ہو چکے ہیں۔
تاہم لیم کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ میں مجرمان کو کھلے عام کارروائیاں کرنے سے روکنے میں مدد ملے گی۔ ان کے بقول عدالتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے اور مجرمان کی چین حوالگی پر انفرادی طور پر فیصلے کیے جائیں۔
برطانیہ نے سن 1997 میں ہانگ کانگ کو واپس چین کے حوالے کیا تھا اور تب سے وہاں 'ایک ملک، دو نظام‘ کے تحت ریاستی انتظامات چلائے جا رہے ہیں۔ تاہم ہانگ کانگ کی نئی نسل ایک تبدیلی کی خواہاں ہے اور وہ چین کے تسلط سے آزادی چاہتی ہے۔
ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔