ہانگ کانگ میں مظاہرے، آنسو گیس، فائرنگ: پارلیمان کا محاصرہ
12 جون 2019
چین کے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ میں ہزارہا شہریوں نے ایک مجوزہ متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے علاقائی پارلیمان کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا۔
اشتہار
ہانگ کانگ، جو ماضی میں ایک برطانوی نوآبادی بھی رہا ہے، 'ایک ملک دو نظام‘ کے سیاسی نظریے کے تحت کمیونسٹ چین کا ایک خصوصی انتظامی علاقہ ہے، جہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے لیکن جہاں کی علاقائی انتظامیہ سیاسی طور پر بیجنگ کی ہمدرد اور ہم خیال ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے اس خصوصی علاقے میں مقامی انتظامیہ نے پارلیمان میں ایک ایسا مسودہ قانون پیش کر رکھا ہے، جس پر ایک رائے شماری ہو چکی ہے اور دوسری آج بدھ بارہ جون کو ہونا تھی۔ یہ قانونی بل ہانگ کانگ سے مجرموں اور ملزموں کی داخلی ملک بدری کے بعد انہیں بیجنگ کے حوالے کرنے سے متعلق ہے، جس کی اس شہر میں زبردست مخالفت کی جا رہی ہے۔
آج بدھ کو جب ہانگ کانگ کی پارلیمان میں اس بل پر دوسری رائے شماری ہونا تھی، اس سے پہلے کل رات ہی سے ہزارہا شہریوں نے پارلیمان کو جانے والے تمام راستے بند کر کے ایک طرح سے اس مقامی مقننہ کا محاصرہ اور ناکہ بندی کر دی تھی۔ اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، تو ریاستی طاقت کے اس استعمال سے صورت حال واضح طور پر پرتشدد رنگ اختیار کر گئی۔
اس دوران بہت بڑی تعداد میں تعینات پولیس کی نفری کو صورت حال کو قابو میں لانے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے استعمال کے علاوہ ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ بھی کرنا پڑی۔ ساتھ ہی ہانگ کانگ کی پارلیمان کو جانے والے تمام راستے بند ہونے کی وجہ سے جب ارکان پارلیمان ایوان تک پہنچ ہی نہ سکے تو اس متنازعہ قانونی مسودے پر دوسری رائے شماری مؤخر کرنا پڑ گئی۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ رائے شماری آئندہ کب ہو گی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ سولہ جون یعنی آئندہ اتوار کے روز ہانگ کانگ میں لاکھوں مقامی شہری اس متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لیں گے۔ اس احتجاج کے لیے اتوار سولہ جون کی تاریخ اس لیے رکھی گئی ہے کہ علاقائی پارلیمان بیس جون تک یہ قانونی بل منظور کر لینے کا ارادہ رکھتی تھی۔ لیکن اب اس نظام الاوقات پر عمل ہو سکے گا یا نہیں، یہ بات قطعی غیر یقینی ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہانگ کانگ کی پارلیمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر منتخب کردہ مقننہ نہیں ہے اور یہ علاقائی قانون ساز ادارہ چین کے اس خطے کی بیجنگ نواز انتظامیہ کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے داخلی ملک بدری یا مجرموں اور ملزمان کے ہانگ کانگ سے بیجنگ کے حوالے کیے جانے کا قانون منظور تو کرنا چاہتا ہے مگر اس شہر کے عوام اس کے شدید مخالف ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہانگ کانگ بھی چین ہی کا حصہ ہے، تو پھر ہانگ کانگ کے عوام کو اس مجوزہ قانون کی منظوری پر شدید اعتراضات کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی سخت گیر حکومت ہانگ کانگ کے سوا باقی ماندہ چین میں تو بہت کڑی سیاسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے لیکن ہانگ کانگ میں استثنائی صورت حال کے باعث وہاں اس کا اختیار اتنا نہیں چلتا۔
دوسرے یہ کہ ہانگ کانگ میں، جہاں جمہوری اقدار باقی ماندہ چین کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ بیجنگ میں حکمران، جو ناقدین کے مطابق حکومت پر تنقید کرنے والے کسی بھی فرد کی آزادیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں یہ اختیار حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ ہانگ کانگ میں پہلے سیاسی منحرفین کو مختلف مقدمات میں جواب دہ بنایا جائے اور پھر جن کے خلاف بیجنگ میں قانونی کارروائی کی جانا ہو، انہیں ہانگ کانگ سے ملک بدر کر کے بیجنگ کے حوالے کر دیا جائے۔
م م / ا ا / اے ایف پی، ڈی پی اے
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔