ہانگ کانگ میں مظاہرے طول پکڑتے ہوئے
29 ستمبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہانگ کانگ سے آمدہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مظاہرین نے آج پیر کے روز بہت سی شاہراہوں کو رکاوٹوں کے ساتھ بند کر دیا، جس کے نتیجے میں معمول کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ متعدد اسکول اور دفاتر بھی بند ہو گئے ہیں تاہم اس خطے کے اسٹاک ایکسچیج کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بازار حصص معمول کے مطابق کام کرتا رہے گا۔ ان تازہ مظاہروں کی وجہ سے البتہ اسٹاک ایکسچینج میں مندی دیکھی گئی ہے۔
شہر کے انتہائی گنجان آباد علاقے مونگ کانگ میں ٹریفک بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وہاں تمام کاروباری مراکز بھی بند ہیں۔ ٹریفک ڈپارٹمنٹ نے بتایا ہے کہ ان مظاہروں کی وجہ سے دو سو بسوں کے روٹ متاثر ہوئے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مسافروں کو پریشانی سے بچانے کے لیے متبادل روٹ استعمال کیے جائیں۔ شہر کے ٹرین سسٹم میں بھی خلل کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
بیجنگ کی طرف سے سیاسی اصلاحات کو محدود بنانے کی کوشش پر ہانگ کانگ میں احتجاجی دھرنے کا سلسلہ ایک ہفتہ قبل شروع ہوا تھا لیکن گزشتہ روز مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر عوامی غصہ نمایاں ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ اب یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ ہانگ کانگ کے چین نواز چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ مستعفی ہو جائیں۔ پولیس نے سرکاری عمارتوں کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور لاٹھی چارج بھی کیا تھا۔
چین کے کنٹرول میں خصوصی حیثیت کے حامل نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ نے اس صورتحال میں ایسے خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے چینی فوج مداخلت کر سکتی ہے۔ آج پیر کے روز انہوں ںے کہا، ’’میں امید کرتا ہوں کہ عوام پرسکون رہیں گے۔ افواہوں سے گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرے گی۔‘‘ انہوں نے مظاہرین سے درخواست کی کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور قانون کا احترام کرتے ہوئے مشکلات کا سبب نہ بنیں۔ لیونگ چُن یِنگ نے واضح کیا کہ پولیس اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے تمام تر اختیارات استعمال کرے گی۔
ہانگ کانگ میں مظاہروں کے اس سلسلے میں اب ہائی اسکول کے طالب علم بھی شریک ہو چکے ہیں۔ ہانگ کانگ کے آئندہ رہنما کے لیے پہلی مرتبہ الیکشن 2017ء میں منعقد کیے جائیں گے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ سیاسی اصلاحات کے لیے مجوزہ رہنما ضابطوں کے تحت ہر کسی کو یہ الیکشن لڑنے کی اجازت ہونا چاہیے۔
تاہم چینی حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مظاہرین کے مطابق یوں بیجنگ چاہتا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے نئے رہنما کے طور پر بالواسطہ طور پر اپنی پسند کی شخصیت کا انتخاب کرے۔ موجودہ الیکشن قوانین کے مطابق ان انتخابات میں حصہ لینے والوں کی حتمی فہرست ایک حکومتی کمیٹی تیار کرے گی۔
برطانیہ کی سابق نو آبادی ہانگ کانگ کے ایک انیس سالہ طالب علم نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ ایک طویل جنگ ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ناکہ بندی کل بھی جاری رہے گی تاکہ اس مظاہرے کو با معنی بنایا جا سکے۔‘‘ اس طالب علم نے خبردار کیا کہ اگر حکومت مظاہرین کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک روا رکھے گی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس بات پر اس کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔