ہانگ کانگ میں مظاہرے چھٹے دن میں داخل، فریقین مذاکرات پر تیار
3 اکتوبر 2014برطانیہ کی سابقہ نو آبادی ہانگ کانگ میں حکومت مخالف مظاہرے بروز جمعہ چھٹے دن میں داخل ہو گئے ہیں۔ وسیع تر جمہوری اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بیجنگ نواز چیف ایگزیکٹیو لیونگ چُن یِنگ اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں لیکن لیونگ نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
جمعرات کے دن ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ موجودہ سیاسی تناؤ کے خاتمے اور ایشیا کے اس اہم تجارتی مرکز میں زندگی معمول پر لانے کے لیے مظاہرین سے مذاکرات کریں گے۔ یہ واضح نہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ کب شروع ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ہانگ کانگ میں گزشتہ پانچ دنوں سے جاری مظاہروں کی وجہ سے وہاں روزمرہ زندگی مفلوج ہو چکی ہے جبکہ اسٹاک ایکسچیج میں بھی مندی پیدا ہوئی ہے۔
اس سیاسی تعطل کے باوجود لیونگ نے کہا، ’’میں مستعفی نہیں ہوں گا کیونکہ مجھے الیکشن کی تیاری کرنا ہے۔‘‘ 1997ء میں ایک خصوصی معاہدے کے تحت چین کا حصہ بننے والے ہانگ کانگ میں پہلے جمہوری انتخابات کا انعقاد 2017ء میں ہو گا۔ بیجنگ حکومت کا اصرار ہے اس الیکشن میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست چینی حکام ہی تیار کریں گے۔ تاہم ہانگ کانگ میں احتجاجی دھرنے منعقد کرنے والے’اوکوپائی سینٹرل‘ نامی گروہ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا آئندہ رہنما چننے کا مکمل اور جامع اختیار ہونا چاہیے۔
’ہانگ کانگ فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس‘ نامی طلباء کا اتحاد بھی اوکوپائی سینٹرل کا حصہ ہے ، جس نے جمعے کی صبح جاری کردہ اپنے بیان میں واضح کیا کہ لیونگ عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں اور ان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑے گا۔
دوسری طرف چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ کے اداریے میں ہانگ کانگ کی موجودہ قیادت کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا گیا ہے، ’’مرکزی حکومت کو چیف ایگزیکٹیو لیونگ چُن یِنگ کی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ ہے اور وہ اپنا کام احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔‘‘ اس اداریے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیجنگ کو ہانگ کانگ کی مقامی پولیس پر بھی مکمل اعتماد ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ناجائز مظاہروں پر قابو پا لے گی۔
یورپی یونین نے ہانگ کانگ کی موجوہ صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اطراف پر زور دیا ہے کہ وہ پر سکون رہیں۔ ہانگ کانگ کے لیے برطانیہ کے آخری گورنر کرس پیٹن نے مظاہرین اور ہانگ کانگ کی حکومت کے مابین مذاکرات کی خبروں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیجنگ کی ’بیوقوفی‘ ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے عوام پر اعتماد نہیں کر رہا ہے کہ وہ اس اہم تجارتی مرکز کو کامیاب طریقے سے چلانے کے لیے موزوں رہنماؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔