1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ میں نئے سکیورٹی قانون کے تحت چار کارکن گرفتار

30 جولائی 2020

ہانگ کانگ میں سکیورٹی حکام نے آزادی حامی گروپوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں متنازعہ نئے سکیورٹی قانون کے تحت پہلی بار چار نوجوان کارکنوں کوگرفتار کیا ہے۔

Hongkong & Sicherheitsgesetz China | Chinesische Flagge
تصویر: Reuters/T. Siu

ہانگ کانگ میں پولیس نے بدھ 29 جولائی کو قومی سلامتی کے متنازعہ نئے قانون کے تحت علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کے شبہے میں چار نوجوان کارکنان کوگرفتار کیا ہے۔ سکیورٹی سے متعلق یہ نیا متنازعہ قانون حال ہی میں نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت پہلی بار چار نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں تین مرد اور ایک خاتون شامل ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ چاروں طالب علم ہیں۔

اس قانون کے نفاذ کے لیے حکام نے سکیورٹی عملے پر مشتمل جو یونٹ تشکیل دی ہے اس کے ایک سینئر افسر لی کوائی واہ نے ان گرفتاریوں سے متعلق کہا، ''ان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریہ ہانگ کانگ قائم کرنا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے وہ بے خوف و خطر لڑیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے ہانگ کانگ میں آزادی کے حامی تمام گروپوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔''

پولیس نے گرفتار کیے گئے افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن ہانگ کانگ کی ایک جماعت 'دی انیشیٹیو انڈیپینڈنٹ پارٹی' نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ جن چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کا تعلق آزادی کی حامی تنظیم 'اسٹوڈنٹ لوکل ازم' سے ہے اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

 اس میں تنظیم کے سابق رہنما ٹونی چنگ بھی شامل ہیں۔ حکام نے نیا سکیورٹی قانون نافذ کرنے سے قبل ہی اس تنظیم کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ ان گرفتاریوں سے عین قبل حکام نے ہانگ کانگ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور ہانگ کانگ میں جمہوری قدروں کے لیے جد و جہد کرنے والے معروف کارکن  بینی تائی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

گرفتاریوں سے عین قبل ہانگ کانگ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور جمہوری قدروں کے لیے جد و جہد کرنے والے معروف کارکن  بینی تائی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گياتصویر: AFP/A. Wallace

گزشتہ ماہ چین نے سکیورٹی سے متعلق ہانگ کانگ میں ایک سخت متنازعہ قانون متعارف کیا تھا۔ نئے سکیورٹی قانون میں چینی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے، بیرونی ممالک کی افواج کے ساتھ کسی بھی طرح کی ملی بھگت اور دہشتگردانہ کارروائیوں کو سنگین جرم کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔

لیکن اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سن 1997 میں برطانیہ کی جانب سے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے کے بعد سے ہی یہ ایک نیم خود مختار علاقہ رہا ہے اور اس طرح کا قانون ہانگ کانگ میں اٹھنے والی آزاد آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مغربی ممالک ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے روابط پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی اور شفافیت کی ضمانت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک اپنے سخت رد عمل میں ہانگ کانگ کے ساتھ حوالگی کے معاہدے کو معطل کر چکے ہیں۔ جبکہ  یوروپی یونین نے بھی ایسی تمام طرح کی ٹیکنالوجی ہانگ کانگ کو برآمد نہ کرنے سے اتفاق کیا ہے جس سے عوام پر نگرانی رکھنے میں مدد ملتی ہو۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ نئے سکیورٹی قانون سے نیم خود مختار ہانگ کانگ میں عوام کی آزادی اور ان کے حقوق خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

ص ز / ج ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں