1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ میں يونيورسٹی کیمپس میدان جنگ بن گیا

17 نومبر 2019

پولی ٹیکنک یونیورسٹی کیمپس میں موجود حکومت مخالف مظاہرین نے پولیس پر تیر چلائے اور پیٹرول بم پھینکے جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ان جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔

Hongkong Protest gegen China & Ausschreitungen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Cheung

ہانگ کانگ کی پولی ٹيکنک يونيورسٹی کے کیمپس ميں ہفتے اور اتوار کی درميانی شب پولیس اور جمہوریت نواز مظاہرین کے درمیان شروع ہونے والی شديد جھڑپوں کے بعد افراتفری پھیل گئی۔ پوليس نے مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے آنسو گيس اور تیز دھار نیلے رنگ کی مائع کا استعمال کیا جبکہ مظاہرين یونیورسٹی کی عمارت کے چھتوں سے سکیورٹی اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکتے رہے اور اور تیر برساتے رہے۔
ہانگ کانگ پولیس نے ٹوئٹر پر زخمی پولیس اہلکار کی تصاویر شائع کرتے ہوئے بتایا کہ مظاہرین پولیس پر اینٹیں، پیٹرول بم، اور تیر پھینک رہے ہیں اور ایک پولیس اہلکار ٹانگ میں تیر لگنے سے زخمی ہوگیا۔ اس پولیس اہلکار کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔


ہانگ کانگ ميں طلبہ نے پچھلے ايک ہفتے سے کئی يونيورسٹيوں ميں احتجاج جاری رکھا ہوا تھا تاہم پولی ٹيکنک يونيورسٹی ميں يہ احتجاج ابھی تک جاری ہے اور يونيورسٹی کے باہر پوليس کی بھاری نفری بھی تعينات ہے۔
پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے کیمپس کے کچھ حصوں کا منظر ایک ایسے جنگی میدان کی طرح لگ رہا ہے جہاں سیاہ پوش مظاہرین مورچوں میں چوکنا بیٹھے ہیں۔ مظاہرین  کے پاس اینٹیں، پیٹرول بم کے کریٹ، تیر اور کمان دیکھے جا سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم آہ لونگ نے بتایا کہ وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں،’’اگر ہم ثابت قدم نہیں رہے تو ہم ناکام ہوجائیں گے۔ لہٰذا کیوں نہ (سب کچھ) داؤ پر لگایا جائے۔‘‘

تصویر: Reuters/T. Peter


علاوہ ازیں جمہوریت نواز قانون سازوں نے امن و امان قائم کرنے کے ليے ہانگ کانگ ميں چينی فوج کی موجودگی پر شدید تنقيد کی ہے۔ شہری حکومت کے ترجمان کے مطابق، ’’ہانگ کانگ انتظامیہ نے چینی فوج کو طلب نہیں کیا بلکہ چینی فوج کی جانب سے رضاکارانہ طور پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/Television Broadcasts Limited


ہانگ کانگ میں روان برس جون میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ چین کے اس خصوصی انتظامی علاقے کی سربراہ کیری لیم ایک ایسا قانون لاگو کرنا چاہتی تھیں، جس کے بعد مشتبہ افراد کی چین کو حوالگی کی راہ ہموار ہو جاتی۔ تاہم  بعد ازاں حکومت نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مظاہرین ابھی بھی پولیس تشدد اور بیجنگ حکومت کے اثر و رسوخ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
ع آ، ع ا (AP, Reuters, AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں