ہانگ کانگ میں چینی سکیورٹی قوانین کے نفاذ کا امکان
22 مئی 2020
چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے پہلے دن ہانگ کانگ میں سکیورٹی قوانین کے نفاذ پر روجہ مرکوز کی گئی۔ چینی نیشنل پیپلز کانگریس کا اجلاس آج جمعے سے شروع ہو گیا ہے۔
اشتہار
جمعہ بائیس مئی سے نیشنل پیپلز کانگریس کا شروع ہونے والا اجلاس کورونا وائرس کی وبا کے سبب دو ماہ کی تاخیر سے شروع ہوا ہے۔ اس میں دو ہزار آٹھ سو ستانوے مندوبین شریک ہیں۔ یہ اجلاس ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔ اس کی افتتاحی تقریب سے وزیر اعظم لی کیچیانگ نے خطاب کیا۔ اس تقریر میں انہوں نے چین کو درپیش مختلف چیلنجز کو موضوع بنایا۔
نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس کے پہلے دن پیش کردہ ایک ایسی تجویز پر بحث شروع ہوئی جس کا مقصد خصوصی انتظامی اختیارات کے حامل علاقے ہانگ کانگ میں سکیورٹی قانون کے نفاذ سے ہے۔ اس تجویز کی منظوری سے ہانگ کانگ میں جو قانون ممکنہ طور پر نافذ ہو گا، اس کے تحت ریاستی غداری، تخریبی انقلابی سرگرمیوں اور بغاوت اور جلسے جلوسوں میں شرکت کے لیے اکسانے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اس مجوزہ قانون میں غیر ملکی مداخلت کے امکان کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندی کی آواز اٹھانے یا ایسی کسی بھی تحریک کو ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔
نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس میں پیش کردہ تجویز کے ممکنہ منفی اثرات کے تناظر میں ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ میں حصص کی قیمتوں میں جمعے کے دن چار فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اس نئی قانون سازی پر تائیوان اور امریکا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا قوی امکان ہے۔
اس کے علاوہ ہانگ کانگ کی جمہوریت نواز تحریک کے لیڈروں اور کارکنوں کے مظاہرے دوبارہ سے شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2003 میں بھی چین ایسی ہی قانون سازی کرنے والا تھا لیکن شدید احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے اس سلسلے کو ختم کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس ہانگ کانگ میں جمہورت نوازی کی سات ماہ جاری رہنے والی تحریک کے دوران چینی کمیونسٹ قیادت نے اپنے انتباہی بیانات میں کہا تھا کہ وہ ہانگ کانگ میں بیجینگ مخالف بیانیے کو برداشت نہیں کریں گے۔ دوسری جانب اس قانون سازی کے حوالے سے ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس چینی علاقے کی سیاسی جماعت سِوِک پارٹی سے تعلق رکھنے والے شہری اسمبلی کے رکن ڈینس کووک نے رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سازی کی شروعات سے 'ایک ملک دو نظام‘ کے بیانیے کی موت ہو گئی ہے۔ انہوں نے بیجنگ حکومت سے کہا کہ وہ ایسی غلطی مت کرے کیونکہ یہ مناسب نہیں ہو گا۔
چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ابھی کورونا وائرس کے خلاف ملکی جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔ انہیں نے ملکی عوام اور اہلکاروں کو اس وائرس کے خاتمے کی کوششوں کو دوگنا کرنے کی تاکید کی۔ چین میں اس وائرس سے پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس سے بیمار ہونے والے افراد کی تعداد تقریباً تراسی ہزار اور مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چھیالیس ہزار سے زائد ہے۔
وزیر اعظم لی کیچیانگ نے اپنی تقریر میں وائرس کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی بیروزگاری اور معاشی عدم توازن کو ختم کرنے کے علاوہ ریاستی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور عام لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس میں ملکی دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ سالانہ ڈیفنس بجٹ میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
ع ح، ع ب (اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔