ہانگ کانگ کے لاکھوں شہریوں کے برٹش پاسپورٹ تسلیم نہیں ہوں گے
29 جنوری 2021
چینی حکومت ہانگ کانگ کے لاکھوں شہریوں کو جاری کردہ برطانوی پاسپورٹ تسلیم نہیں کرے گی۔ یہ بات چینی وزارت خارجہ نے آج جمعے کے روز کہی اور اس کی وجہ ایک سکیورٹی قانون سے متعلق لندن اور بیجنگ کے مابین تنازعہ بنا۔
اشتہار
بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے آج جمعے کے روز کہا کہ چین ہانگ کانگ کے شہریوں کو برطانیہ کی طرف سے جاری کردہ لاکھوں پاسپورٹ اب قانونی سفری اور شناختی دستاویزات کے طور پر تسلیم نہیں کرے گا اور یہ فیصلہ اتوار اکتیس جنوری سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
10 تصاویر1 | 10
ساتھ ہی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ہانگ کانگ میں بیجنگ حکوت کی سرپرستی اور منظوری سے جو نیا سکیورٹی قانون نافذ کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے بیجنگ اور لندن کے مابین پیدا شدہ تنازعے میں چین اپنی طرف سے مزید اقدامات کرنے کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔
سابقہ برطانوی نوآبادی
ہانگ کانگ میں، جو ماضی میں ایک برطانوی نوآبادی تھا اور جس کا انتظام 1997ء میں برطانیہ نے چین کے حوالے کر دیا تھا، چار لاکھ سے زائد مقامی شہری ایسے ہیں، جن کے پاس برطانیہ کے جاری کردہ پاسپورٹ ہیں۔
اس پاسپورٹوں کی وجہ سے ان مقامی باشندوں کو برطانیہ کے سمندر پار شہریوں کی حیثیت حاصل ہےاور وہ بغیر کسی بھی رکاوٹ کے برطانیہ کا سفر کر سکتے ہیں۔
ہانگ کانگ میں متعارف کرائے گئے نئے متنازعہ سکیورٹی قانون کی وجہ سے برطانیہ یہ اعلان بھی کر چکا ہے کہ وہ اپنی اس سابقہ نوآبادی کے 5.4 ملین شہریوں کو پانچ سال تک برطانیہ میں رہائش کے اجازت نامے جاری کرے گا، جس کے بعد وہ چاہیں تو انہیں عام برطانوی شہری بننے کا حق بھی حاصل ہو سکے گا۔
ہانگ کانگ کی سڑکوں پر یہ ٹرامیں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے رواں دواں ہیں اور سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ حال ہی میں ان ٹراموں پر شہر کے مرکزی حصے میں پابندی کی تجویز سامنے آئی تو اُس کی بہت مخالفت کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Clarke
’ہَٹ کے، بچ کے، ڈِنگ ڈِنگ آ رہی ہے‘
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے 1904ء ہی میں ہانگ کانگ کے جزیرے پر اس طرح کی پہلی ٹرام کے لیے پٹری بچھا دی تھی۔ تب سے یہ دو منزلہ ٹرام اس شہر کی پہچان چلی آ رہی ہے۔ لوگ اسے عام طور پر ’ڈِنگ ڈِنگ‘ کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے پورے شہر کی سیر سیاحوں کے پروگرام میں ضرور شامل ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
نئے تقاضوں سے ہم آہنگی میں مشکلات
ٹریفک کے اژدہام کی وجہ سے ’ڈِنگ ڈِنگ‘ کی اوسط رفتار دَس کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہی پہنچ پاتی ہے حالانکہ موزوں حالات میں یہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی سفر کر سکتی ہے۔ اب تک اس میں ایئر کنڈیشننگ کی بھی سہولت نہیں تھی۔ عنقریب ایئر کنڈیشنڈ ٹرام بھی سڑکوں پر آنے والی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ogle
’ڈِنگ ڈِنگ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ہے‘
ایک مشاورتی کمپنی نے ہانگ کانگ کی حکومت کو مشورہ دیا کہ شہر کے مرکزی حصے میں اس ٹرام کے چلنے پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ اس کے لیے مختص پٹریاں سڑکوں کے رقبے کا تیس فیصد گھیر لیتی ہیں اور یہ کہ لوگ اِس کی بجائے زیر زمین ریلوے کے ذریعے سفر کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی تجاویز کو عام شہریوں نے پسند نہیں کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Lopez
پبلک ٹرانسپورٹ کے فروغ کی ضرورت
ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے ہانگ کانگ کی سِٹی پلانر سسیلیا لوئیزے چُو نے بتایا کہ شہر کے وسط میں کم سے کم کاروں کو آنے سے روکنے کا یہی طریقہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جہاں ایک کار میں زیادہ سے زیادہ سات لوگ بیٹھ سکتے ہیں، وہاں ’ڈِنگ ڈِنگ‘ میں 115 مسافر سفر کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Clarke
سفر کا سستا، قابل عمل اور انوکھا ذریعہ
ہانگ کانگ کے بہت کم شہری کار خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ کار پارکنگ کا مسئلہ الگ ہے۔ اس ٹرام کے ساتھ یکطرفہ سفر کے ٹکٹ کی قیمت محض 0.26 یورو کے برابر ہوتی ہے۔ پچھلی طرف سے لوگ اس پر چڑھتے ہیں اور اگلی طرف سے اترتے ہیں۔ ادائیگی اترتے وقت کرنا ہوتی ہے، سکّوں یا پھر چِپ کارڈ کے ذریعے۔ ایک دِن میں ایک لاکھ اَسّی ہزار مسافر ’ڈِنگ ڈِنگ‘ کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ross
ٹرامیں ’گنہگار‘ نہیں بلکہ ’مظلوم‘ ہیں
ٹرام دوست حلقوں کا موقف یہ ہے کہ شہر کے مرکزی حصے میں ٹریفک غلط جگہوں پر کاریں پارک کرنے والوں کی وجہ سے بلاک ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کاریں ریل کی پٹری پر بھی چلائی جا سکتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں اس طرح کی ٹراموں کی تعداد تقریباً ایک سو ہے جبکہ کاروں کی تقریباً چار لاکھ۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Lopez
مقامی روایات کے حق میں جدوجہد
دریں اثناء شہری انتظامیہ نے مشاورتی فرم کی تجویز سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے گو ابھی سرکاری طور پر اسے رَد نہیں کیا۔ ٹرام دوست حلقے جانتے ہیں کہ اُنہیں چوکس رہنا ہو گا ورنہ ’ترقی‘ کے نام پر اس طرح کی مقامی روایات کو قربان ہوتے دیر نہیں لگتی۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Lopez
7 تصاویر1 | 7
بیجنگ کا لندن پر الزام
اس تنازعے میں بیجنگ نے لندن پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے معاملات میں شدید مداخلت اور چین کی خود مختاری پر حملے کا مرتکب ہو رہا ہے۔
بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ لندن نے اب جو اعلان کیا ہے، وہ ہانگ کانگ کے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو 'دوسرے درجے کے برطانوی شہری‘ بنانے کی ایک کوشش ہے۔
اشتہار
لندن کا جوابی الزام
برطانیہ کا چین پر الزام یہ ہے کہ اس نے ہانگ کانگ میں جو نیا سکیورٹی قانون نافذکیا ہے، اس کے ذریعے بیجنگ دراصل اس سابقہ برطانوی نوآبادی اور اپنے اس خصوصی انتظامی علاقے میں سیاسی اپوزیشن کا گلا دبا دینا چاہتا ہے۔
لندن حکومت یہ اعلان بھی کر چکی ہے کہ وہ بھی اتوار اکتیس جنوری سے ہانگ کانگ کے شہریوں کی طرف سے برطانیہ میں پانچ سالہ مدت کے رہائشی اجازت ناموں کے لیے درخواستیں وصول کرنا شروع کر دے گی۔
کھانا چاہتے ہیں؟ تو جگہ دستیاب ہے ٹوائلٹ کے ساتھ
کیا آپ اپنا کھانا ایک ایسے کمرے میں پکانے کا تصور کر سکتے ہیں جس میں ساتھ ہی ٹوائلٹ بھی ہو؟ یقیناﹰ نہیں۔ لیکن ہانگ کانگ میں کئی افراد انتہائی تنگ کمروں میں اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
نامساعد حالات
ہانگ کانگ میں کئی ایسے اپارٹمنٹس ہیں جہاں کھانا پکانے کے لیے جگہ عین ٹوائلٹ کے ساتھ ہی موجود ہے۔ کئی لوگ اس طرح کے حالات کو غیر انسانی تو سمجھتے ہیں لیکن ان میں رہنے پر مجبور بھی ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
کچن اور باتھ روم ایک ساتھ
کینیڈین فوٹوگرافر بینی لام نے ’ٹریپ ‘ یعنیٰ پھنسے ہوئے ‘ کے عنوان سے اپنی تصاویری سیریز کے ذریعے ہانگ کانگ کی پوشیدہ کمیونٹی کی زندگی کے احوال کو عکس بند کیا ہے۔ ان کی یہ سیریز ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے بنائی گئی ہے جو غربت کے خاتمے اور شہری حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
محدود جگہ
تقریبا 7.5 ملین آبادی اور ترقیاتی کاموں کے لیے ہانگ کانگ میں زمین کی غیر موجودگی کے باعث اس شہر میں رہائشی اپارٹمنٹس اور گھروں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور اب یہاں رہائش اختیار کرنا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے سے زیادہ مہنگا ہے۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
نا قابل برداشت صورتحال
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس شہر میں اسی طرح کے 88 ہزار اپارٹمنٹس میں تقریباﹰ 2 لاکھ سے زائد افراد رہنے پر مجبور ہیں۔ رہائشیوں کو اس محدود جگہ میں اپنے روز مرہ کی ضروری سرگرمیاں انجام دینا پڑتی ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
اپارٹمنٹس کی دگنی قیمتیں
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف 2007 سے 2008ء کے درمیانی عرصے میں گھروں کی قیمتیں دگنی ہو گئیں۔ ان چھوٹے سے گھروں کے اکثر باسیوں کے لیے گھر لوٹنے کی سوچ ہی انتہائی پریشان کن ہوتی ہے۔ کئی گھروں کے رہائشی تازہ ہوا میں سانس لینے کو بھی ترستے ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
میٹرس کے سائز کے برابر گھر
ان گھروں میں رہنے والوں کا تعلق کم تنخواہ دار طبقے سے ہے جو یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ کئی کمرے تو ایسے ہیں جس میں وہ نہ تو مکمل طور پر سیدھا کھڑے ہو پاتے ہیں اور نہ ہی پاوں پسار سکتے ہیں۔ یہاں لال بیگ (کاکروچ) اور کھٹمل ان کے ساتھی ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
تابوت یا پنجرہ گھر
دو سال تک اپنی تصاویری سیریز پر کام کرنے والے لام نے کوشش کی ہے کہ یہاں غریبی اور امیری کے درمیان گہری ہوتی خلیج کی عکاسی کی جائے۔ ’پنجرہ ‘ یا ’ تابوت‘ کا نام دیے گئے ان گھروں کی تصاویر ان حالات کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
انسانی نفس کی تذلیل
اقوام متحدہ کی جانب سے ان حالات کو عزت نفس کی تذلیل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں کچھ بہتری کی امید کی جا رہی ہے اور اس کے لیے حکومت نے 2027ء تک 280,000 نئے گھروں کی تعمیر کا عندیہ دیا ہے جہاں زندگی کی کوالٹی کو مد نظر رکھا جائے گا۔
1997ء میں ہانگ کانگ کے چین کے حوالے کیے جانے سے پہلے برطانیہ اور چین کے مابین جو امور طے ہوئے تھے، ان کے تحت ہانک کانگ کے تقریباﹰ ساڑھے پانچ ملین شہریوں سے ان کی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کے وعدے کیے گئے تھے۔
برطانیہ کو لیکن شکایت یہ ہے کہ چینی حکام اب نا صرف ہانگ کانگ سے متعلق واقعات اور مقدمات میں وہاں اپنی عمل داری ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہاں کے حالات واقعات تک کی چھان بین بھی ہانگ کانگ میں مقامی اہلکاروں کے بجائے چینی حکام کرتے ہیں۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
ایشیا کے مہنگے ترین شہر، رہائش رکھنا انتہائی مشکل
دنیا کے دس مہنگے ترین شہروں میں چھ کا تعلق ایشیا سے ہے۔ یہ شہر نئے آبادکاروں کے لیے انتہائی مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel
بیجنگ، چین
دنیا کا نواں مہنگا ترین شہر چینی دارالحکومت بیجنگ ہے، جہاں مکانات کی قیمتیں اور کرائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ بیجنگ کے انٹرنیشنل اسکول بھی اپنی فیس میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چینی کرنسی یوان کی قدر میں استحکام سے چینی شہروں میں زنگی بسر کرنا مشکل تر ہو گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/F. Li
شنگھائی، چین
چین کی مرکزی سرزمین پر سب سے مہنگا ترین شہر شنگھائی ہے۔ چینی بندرگاہی شہر دنیا کا ساتواں مہنگا ترین شہر ہے۔ شنگھائی میں پچاسی مربع میٹر اپارٹمنٹ کا کرایہ 1800 سو سے 2170 امریکی ڈالر ( 1030 یورو سے 1800 یورو) تک ہے۔ اس شہر میں ہر چیز کی خرید و فروخت کا تعلق کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے منسلک ہے اور نئے آباد ہونے والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yu Shenli
سیئول، جنوبی کوریا
جنوبی کوریا کا دارالحکومت سیئول غیر ملکی آبادکاروں کے لیے پانچواں مہنگا ترین شہر ہے۔ غیر ملکیوں کے ساتھ سیئول کے باسی بھی اس پر متفق ہیں کہ ایک کافی کا کپ بھی اس شہر میں بہت مہنگا ہے اور یہ دس امریکی ڈالر ( 8.60 یورو) کا ہے۔ ایک جینز کی پینٹ کی اوسط قیمت ڈیڑھ سو امریکی ڈالر ہے۔ مجموعی طور پر سیئول میں زندگی گزارنا خاصا مشکل کام ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
سنگا پور
اس شہری ریاست کو جنوبی ایشیائی مالیاتی مرکز خیال کیا جاتا ہے۔ یہ غیرملکی افراد کے لیے دنیا کا چوتھا مہنگا ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ سنگا پور میں جینز پینٹ کی اوسط قیمت ایک سو امریکی ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قیمت امریکی شہر نیویارک کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ سنگا پور میں گاڑیوں کے لیے پیٹرول بھی بہت مہنگا ہے، اور فی لیٹر قیمت دو امریکی ڈالر سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/G. Hellier
ٹوکیو، جاپان
جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی آبادی نوے لاکھ سے زائد ہے اور یہ اقوام عالم میں دوسرا مہنگا ترین شہر ہے۔ ماہرین کے مطابق جاپانی شہروں میں زندگی بسر کرنے میں قدرے آسانی کی وجہ جاپانی ین کی قدر کا امریکی ڈالر کے مقابلے میں عدم استحکام ہے۔ ٹوکیو میں پچاسی مربع میٹر کے فرنشڈ اپارٹمنٹ کا کرایہ 2700 سے 3500 امریکی ڈالر ( 2300 سے 3000 یورو) تک ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
ہانگ کانگ، خصوصی انتظامی اختیارات کا حامل چینی شہر
سن 2018 میں ہانگ کانگ کو دنیا بھر میں سب سے مہنگے شہر کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ اس شہر میں کرائے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور یہ نئے غیر ملکیوں کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب ہے۔ ہانگ کانگ میں کافی کے ایک کپ کی قیمت اور فی لیٹر پٹرول بھی دنیا بھر میں سب سے مہنگا ہے۔ غیر ایشیائی شہروں میں سوئٹزرلینڈ کے بیرن اور زیورچ، چاڈ کا اینجمینا کے علاوہ انگولا کا لوانڈا بھی انتہائی مہنگے شہروں میں شمار کیے جاتے ہے۔