1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہاں، میں نے جرمن لڑکی کو قتل کیا‘، عراقی مہاجر کا اعتراف

9 جون 2018

عراقی نوجوان علی نے تسلیم کر لیا ہے کہ اس نے جرمنی میں بطور مہاجر اپنے قیام کے دوران ایک چودہ سالہ جرمن لڑکی کو قتل کیا تھا۔ اسے جمعے کے دن ہی عراق میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کیس پر جرمنی میں عوامی غم و غصہ نمایاں ہے۔

Todesfall Susanna
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

عراقی علاقے کردستان کے حکام نے ہفتہ نو جون کو بتایا کہ بیس سالہ علی نے ایک جرمن لڑکی کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ علی پر الزام ہے کہ اس نے جرمن شہر ویزباڈن میں اس چودہ سالہ لڑکی کو جنسی حملے کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ طبی رپورٹوں کے مطابق اس لڑکی کی موت گلا گھونٹ دینے کے باعث ہوئی تھی۔ جرمن پولیس نے مقتولہ کا نام سوزانے ماریہ ایف بتایا ہے۔

جرمنی میں سیاسی پناہ کا طریقہ کار

01:02

This browser does not support the video element.

کردستان کے شہر دہوک میں پولیس اہلکار طارق احمد نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے بعد کی جانے والی ابتدائی تفتیش کے دوران اس نوجوان نے اعتراف جرم کر لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علی کا تعلق بنیادی طور پر کردستان سے ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم علی کے مطابق جرمن لڑکی اس کی دوست تھی، لیکن کسی بات پر تنازعہ ہوا اور اس لڑکی نے پولیس کو ٹیلی فون کرنے کی دھمکی دی تو ملزم نے اپنی اس ’دوست‘ کو قتل کر دیا۔

اس واردات کے بعد علی اپنے کنبے سمیت جرمنی سے فرار ہو گیا تھا۔ جرمن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے معلوم کر لیا تھا کہ وہ واپس اپنے وطن لوٹ چکا ہے اور یوں عراقی سکیورٹی اداروں کے تعاون سے اس کی گرفتاری ممکن ہو سکی۔ عراقی حکام نے بتایا ہے کہ اس ملزم کو جرمنی کے حوالے کرنے کی غرض سے دفتری کارروائی جاری ہے تاکہ اس کے خلاف جرمنی میں باقاعدہ قانونی کارروائی ممکن ہو سکے۔

جرمن حکام نے کہا ہے کہ ملزم کی جرمنی حوالگی کی خاطر تمام بین الاقوامی قواعد و ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ تاہم ماہرین کے مطابق علی کی جرمنی حوالگی کا معاملہ پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ان دونوں ممالک کے مابین ملزموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ادھر ڈی پی اے نے ایک مقامی پولیس اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ علی کا مقدمہ کردستان میں ہی چلایا جائے گا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق علی اپنے والدین اور پانچ بہن بھائیوں کے ہمراہ سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی آیا تھا۔ تاہم علی کی پناہ کی درخواست سن دو ہزار سولہ میں ہی  مسترد ہو گئی تھی۔ اسے واپس عراق ڈی پورٹ کر دیا جانا تھا تاہم اس نے اپنی اپیل کی سماعت کے عرصے تک کے لیے عبوری رہائشی اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس دوران کئی مواقع پر مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے شبے میں علی کو شامل تفیش بھی کیا گیا تھا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کے تناظر میں یہ معاملہ ایک نئی بحث کا باعث بن چکا ہے۔ جرمنی میں اس واقعے کی وجہ سے عوامی سطح پر غم و غصہ نمایاں ہے۔ ادھر سوزانے کے آبائی شہر مائنز میں ہفتے کے دن کچھ حلقوں نے میرکل کی مہاجرت دوست پالیسی کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا۔ تاہم ساتھ ہی کچھ دیگر حلقوں نے نسل پرستی کے خلاف ایک ریلی نکالنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں