انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور طاقتور خلائی دوربین پچیس دسمبر کو زمین کے مدار میں روانہ کر دی گئی لیکن ہبل کا نعم البدل قرار دی والی اس کرشماتی ٹیلی اسکوپ کے نام پر شروع ہونے والا تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
اشتہار
امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ وہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ (جے ڈبلیو ایس ٹی) کا نام تبدل نہیں کرے گا۔ الزام ہے کہ ناسا سے وابستہ جس ماہر فلکیات پر اس دیو ہیکل خلائی دوربین کا نام رکھا گیا ہے، وہ ہم جنس پسندوں کے خلاف تھا۔
ہبل کو تبدیل کرنے والی اس شاندار اور عظیم الشان ٹیلی سکوپ کو کائنات میں چھپے رازوں کو افشا کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ ان ستاروں اور اجزاء کے حوالے سے بھی رسرچ میں مدد دے گی، جو ہبل نامی خلائی دور بین نہیں کر سکی۔
سن انیس سو نوے میں خلا میں روانہ کی جانے والی ہبل ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ہی سائنس دانوں کو علم ہوا کہ کائنات کتنی پرانی ہے، یہ ممکنہ طور پر کیسے وجود میں آئی، بلیک ہولز کی نشاندہی ہوئی اور ایسی کہکشاؤں کا علم ہوا، جو اس سے پہلے کسی کئے ذہن میں جنہیں تھیں۔
اب اندازہ لگا لیجیے کے ماہرین جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو اگر ہبل سے بڑی، زیادہ حساس اور زیادہ ٹیکنالوجی والی خلائی دور بین قرار دے رہیں تو یہ کیا کیا دریافتیں ممکن بنا سکے گی۔
البتہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس عظیم خلائی دوربین کا نام ایک ایسی متنازعہ شخصیت پر رکھنا، جو نہ صرف ہم جنس پسندوں کے خلاف تھا بلکہ جس نے مبینہ طور پر اپنے دور میں مختلف جنسی میلانات و رجحانات رکھنے والے افراد کو اپنے تعصب کا نشانہ بنایا، دراصل پیغام دیتا کہ ناسا ایسے رویوں کی تائید کر رہا ہے۔
اشتہار
جیمز ویب کون تھے؟
جیمز ویب نے سن انیس سو اکسٹھ تا انیس سو ارسٹھ امریکی خلائی ادارے ناسا کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس سے قبل وہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھے۔
یہ دور نہ صرف سائنسی اور خلائی ترقی کی حوالے سے اہم تھا بلکہ سرد جنگ میں سابق سوویت یونین کے مقابلے میں امریکا نے عالمی سطح پر خود کو اعلی و برتر بھی منوانا تھا۔ یہ وہی دور تھا، جب امریکا چاند پر جانے کی اولین پرواز بھرنے کی تیاری میں تھا۔
جیمز ویب نہ صرف اپنی سائنسی قابلیتوں کی وجہ سے مشہور ہیں بلکہ ان کی سیاسی بصیرت نے بھی امریکی خلائی مشن کو ایک نئی جہت فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہبل دوربین کے بہترین امیجز پر ایک نظر
گزشتہ تیس برسوں سے ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعے خلا کے حیران کن مناظر اور تصاویر دیکھنے کو دستیاب ہوئی ہیں۔ کائنات کے دوردراز کے کونوں سے بھی امیجز حاصل ہوئے ہیں۔ چند بہترین تصویر دیکھتے ہیں:
تصویر: NASA/Newscom/picture alliance
کمپیوٹر کا مسئلہ حل ہو گیا
ناسا کو ہبل ٹیلی اسکوپ سے تیرہ جون سن 2021 سے پندرہ جولائی تک امیجز موصول ہونا بند ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ ناسا میں نصب کمپیوٹر کی میموری کے سسٹم میں نقص کا پیدا ہونا بتایا گیا۔ جب یہ نقص دور نہ ہوا تو بعض ریٹائرڈ ماہرین کو طلب کیا گیا اور انہوں نے اس نقص کو دور کیا۔ امیجز پھر موصول ہونا شروع ہو گئے۔ تین دہائیوں سے ہبل دوربین نے خلا کے ستاروں اور کہکشاؤں کی حیران کن اور شاندار تصاویر فراہم کی ہیں۔
تصویر: ESA
ستارے جنم لے رہے ہیں
اس تصویر میں ہبل دوربین نےستاروں کی نرسری کو محفوظ بنایا ہے۔ سن 2014 میں انتہائی بڑے نیبولا اور اس کے قریب ایک اور ستارے کے درمیان وسیع ستاروں کا جھرمٹ بادل جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار نوری سال کی دوری پر ہے۔ ایک نوری سال سے مراد ایک سال میں روشی اپنی رفتار سے جتنا سفر کرتی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔
تصویر: NASA/ESA/TScI
اسٹار وارز سے بہتر
سن 2015 میں اسٹار وار فلم کا نیا حصہ ریلیز کیا گیا تھا۔ ہبل کی یہ تصویر بھی اسی سال کی ہے۔ اس میں بھی ستارے مدمقابل ہیں۔ اس تصویر میں ایک آسمانی اسٹرکچر تیرہ سو نوری سال کی مسافت پر دکھائی دے رہا ہے، جو ایک نئے اسٹار سسٹم کی افزائش سے نتھی کیا گیا ہے۔ یہ ایک ناقابل بیان تصویر قرار دی گئی تھی۔
تصویر: NASA/ESA/Hubble
خلا میں آنکھیں
سن 1990 میں ہبل ٹیلی اسکوپ کو زمین کے مدار میں چھوڑا گیا تھا۔ یہ تمام دوربینوں کی ملکہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ زمینی مدار میں ستائیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے۔ یہ زمین سے تین سو چالیس کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ ہبل کی لمبائی گیارہ میٹر اور وزن گیارہ ٹن ہے یعنی ایک اسکول بس جتنا وزن۔ اسے ’خلا میں آنکھ‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
تصویر: NASA/Getty Images
کائناتی بلبلے
ہبل نے انسانوں کو ستاروں کی پیدائش اور سیاروں کی معلومات اور سوجھ بُوجھ فراہم کی ہے۔ اس کے ذریعے کائنات کی عمر اور وہاں کے بلیک میٹرز کی آگہی بھی ملی۔ اس تصویر میں گیس کا ایک بڑا گولہ دیکھا جا سکتا ہے جو شاید دو ستاروں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والے سپرنووا دھماکے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: AP
عارضی تیرتے رنگ
خلا میں مختلف گیسیں مختلف رنگ چھوڑتی ہیں۔ سرخ رنگ کی گیس سلفر سے نکلتی ہے تو سبز رنگ کی گیس کا تعلق آکسیجن سے ہے۔ نیلے رنگ کی گیس بھی آکسیجن کی ہو سکتی ہے۔
سن 1993 میں امریکی خلائی شٹل اینڈیور ماہرین کو لے کر ہبل ٹیلی اسکوپ تک گئی تھی۔ ان ماہرین نے وہاں پہنچ کر دوربین کے شیشے کی مرمت کی اور اس دوران اس کے عدسوں پر ایک عینک بھی چڑھائی تا کہ اس کے دیکھنے کی صلاحیت مزید بہتر ہو سکے۔ اب تک اس دوربین کی پانچ مرتبہ مرمت کی جا چکی ہے۔ آخری مرتبہ مرمت سن 2009 میں کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa
خلائی کنڈرگارٹن
دسمبر سن 2009 میں ہبل نے ایک حیران کن امیج روانہ کیا۔ اس تصویر میں نیلے نشانات چھوٹے چھوٹے ستارے ہیں، جو ابھی نوزائیدہ ہیں۔ ان میں سے بعض ستاروں کی عمر چند ملین سال ہے۔ ستاروں کا یہ بڑا جھرمٹ ایک قریبی کہکشاں میں واقع ہے اور ہماری کہکشاں ملکی وے کا ایک سیٹلائٹ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa
تتلی ہے یہ؟
یہ تصویر بھی خلا سے ہبل نے کھینچی ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہبل نے یہ کیسے بنائی ہے یا اس سے مراد کیا ہے لیکن یہ بھی ایک انتہائی شاندار تصویر ہے۔ ہبل دوربین اب تک ہزاروں تصویریں ارسال کر چکی ہے۔
تصویر: NASA/ESA/ Hubble Heritage Team
آفاقی سومبریرو
یہ تصویر کئی تصاویر کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں سومبریرو کہکشاں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کہکشاں بل کھاتی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں نے انسانی دماغ کو بگ بینگ کے تصور کو بھی سمجھنے میں مدد دی ہے۔
تصویر: NASA/ESA/ Hubble Heritage Team
ایڈون پاول ہبل
ایڈون پاول ہبل
دنیا کی سب سے بڑی دوربین امریکی فلکیاتی سائنسدان ایڈون پاول ہبل (1889-1953) کے نام سے معنون ہے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے اس کی تصدیق کی تھی کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور انہوں نے ہی کائنات کی تخلیق سے جڑے بگ بینگ کے نظریے کا فہم بھی دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تخلیق کے ستون
زمین سے سات ہزار نوری سال کی دوری پر یہ ستون حقیقت میں ایگل نیبولا ہے۔ ہبل کی اس تصویر کو ’کائنات کے ستون‘ کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: NASA, ESA/Hubble and the Hubble Heritage Team
ایک نیا دور
ہبل زوردار انداز میں کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا امکان ہے کہ ہبل واپس زمین پر سن 2024 میں لائی جائے گی۔ اس کی جگہ لینے والی متبادل دوربین جیمز ویب تیار ہو چکی ہے۔ اس کی آزمائش جاری ہے۔ امکان ہے کہ جیمز ویب رواں برس کسی وقت خلا میں نصب کر دی جائے گی۔ اس کے کام کا مقام زمین سے ڈیڑھ ملین کلومیٹر دور ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa/Chris Gunn
اسپیس اسمائلی
یہ تصویر بھی ہبل دوربین کی تخلیق ہے، ایک اسپیس اسمائلی۔ یہ روشنی کے ایک دھارے میں پیدا خم تھا، جس نے اسمائلی کا روپ دھارا اور ہبل ٹیلی اسکوپ نے محفوظ کر لیا۔
تصویر: PD/NASA/J. Schmidt
14 تصاویر1 | 14
جیمز ویب کی انہی خدمات کے عوض سن دو ہزار دو میں اس وقت کے وقت ناسا کے سربراہ شین او کوفی نے فیصلہ کیا کہ نیکسٹ جنریشن سپیس ٹیلی اسکوپ کا نام بدل کر جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ رکھ جائے گا۔ اس انقلابی ٹیلی اسکوپ کی تیاری کا عمل ایک طویل عرصے سے جاری تھا۔
الزامات اور جوابات
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ جیمز ویب نہ صرف ہم جسن پسندوں خلاف تھے بلکہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور بعدازاں ناسا میں اہم عہدوں پر تعینات رہنے کے دوران انہوں نے اس کمیونٹی کی حوصلہ شکنی کی اور انہیں سائیڈ لائن کر دیا۔
یہ الزام بھی ہے کہ جیمز ویب کی اس معتصبابہ رویے کی وجہ سے تب بالخصوص ناسا میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کا تنہا کرنے کی کوشش کی گئی اور مختلف جنسی میلانات و رجحانات کے حامل افراد سے مواقع چھین لیے گئے۔
دوسری طرف جیمز ویب کے دفاع میں بھی ایک حلقہ فعال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیمز ویب کے دور میں ناسا میں نسل پرستی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے گئے اور افریقی نژاد امریکی شہریوں کو اس ادارے میں خوش آمدید کہا گیا۔
جیمز ویب کے دفاع میں ان کی صنفی امتیاز کے خلاف آواز اور کوششوں کو بھی سراہا جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی کہا ہے کہ ان الزامات کے بعد مکمل انکوائری کی گئی تھی اور معلوم ہوا تھا کہ جیمز ویب پر عائد کردہ الزامات ثابت نہیں ہو سکے تھے۔