مہاجرین مخالف آن لائن ہتھیار بیچنے والے ایک شخص کو جرمنی کی درخواست پر ہنگری میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ مشتبہ ڈیلر مہاجرین کے خلاف ’دفاع‘ کے نام سےآن لائن ہتھیار فروخت کرتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Roessler
اشتہار
برلن کے ریاستی پراسیکیوٹر کے مطابق اس مشتبہ ڈیلر نے نے ایک آن لائن دکان بنا رکھی تھی، جہاں غیر قانونی ہتھیار فروخت کیے جاتے تھے۔ بدھ کے روز جرمن حکام نے بتایا کہ اس مشتبہ ملزم نے متعدد جرمنوں کو ہتھیار فروخت کیے۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
35 سالہ ملزم انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ماریو آر ہے۔ جرمنی میں نجی کوائف کے قوانین کی بنا پر اس ملزم کا پورا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ حکام کا تاہم کہنا ہے کہ ملزم نے انٹرنیٹ پر ’مہاجرین کا خوف‘ نامی دکان قائم کر رکھی تھی۔ جہاں مختلف جرمن باشندوں کو مہاجرین سے دفاع کے لیے ہتھیار فروخت کیے گئے۔
جرمنی میں اس ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر ہنگری کی پولیس نے ماریو آر کو حراست میں لے لیا۔ بتایا گیا ہے کہ جرمن اور ہنگیریئن اہلکاروں کی ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم اس ملزم کے گھر اور کمیپوٹرز کی چھان بین کر رہی ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی اور اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ نے تفتیشی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس
آن لائن دکان سے ایک لاکھ یورو سے زائد مالیت کے ’گیس پاؤرڈ پستول‘ فروخت کیے گئے۔ ماریو آر اس سے قبل جرمنی سے فرار ہو کر ہنگری پہنچ گیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ سینکڑوں جرمن باشندوں نے اس آن لائن دکان سے غیرقانونی ہتھیار خریدے۔ یہ ہتھیار ربر اور دھات کی بنی گولیاں داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان سے چلائی جانے والی گولیاں کسی کو شدید زخمی حتیٰ کہ ہلاک تک کر سکتی ہیں۔
جرمن میڈیا کے مطابق ملزم ماریو آر انتہائی دائیں بازو کے مواد پر مبنی دیگر دو ویب سائٹس بھی چلا رہا تھا، جن میں سے ایک پر مہاجرین اور یہودیوں سے متعلق انتہائی نسل پرستانہ تصورات پھیلائے جاتے تھے، جب کہ جرمن حکومت پر بھی سخت تنقید کی جاتی تھی۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
حکام کا کہنا ہے کہ بعد میں ’مہاجرین کا خوف‘ نامی آن لائن دکان بند کر کے ’محب وطن‘ نامی ویب سائٹ کھولی گئی تھی، جس کا پوسٹل پتا زیورخ، سوئٹزرلینڈ کا تھا، تاہم ان دونوں ویب سائٹس پر موجود مواد قریب ایک سا تھا اور ایک سے ہتھیار فروخت کیے جاتے تھے۔
پیٹریاٹن شاپ ڈاٹ آر یو پر بھی مختلف ہتھیار اور گولیاں فروخت ہوتی تھیں اور اس سلسلے میں نہ کسی کاغذی کارروائی کا خیال رکھا جاتا تھا اور نہ ہی خریدار سے متعلق دیگر کوائف لیے جاتے تھے۔ انونومس نیوز ڈاٹ آر یوسے ان ہتھیاروں کی تشہیر کی جاتی تھی۔
فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ ماریو آر کو کب جرمنی کے حوالے کیا جائے گا۔ اس دکان سے خریداری کرنے والے افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔