1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہجوم کے ہاتهوں ہلاک فرخنده کا آخری سفر خواتین کے کندھوں پر

شادی خان سيف، کابل23 مارچ 2015

افغان دارالحکومت کابل میں سینکڑوں مظاہرین نے اس مقام پر احتجاج کیا، جہاں ایک مشتعل ہجوم نے ایک نوجوان لڑکی کو مبینه طور پر قرآن کی بے حرمتی کرنے پر قتل کرنے کے بعد اُس کی لاش کو نذر آتش کر کے دریا میں پهینک دیا تها۔

روایات کے برعکس افغان خواتین نے آگے بڑھ کر مقتوله کے جنازے کو کندھا دیا
روایات کے برعکس افغان خواتین نے آگے بڑھ کر مقتوله کے جنازے کو کندھا دیاتصویر: Reuters/M. Ismail

ستائیس ساله فرخنده کو یہاں سال نو کا جشن شروع ہونے سے ایک روز قبل یعنی جمعرات 19 مارچ کی شام کو ہلاک کیا گیا تها۔ ابتدائی طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جب یه خبر آئی که قرآن کی بے حرمتی کرنے والی ايک خاتون کو ہلاک کر دیا گیا هے تو لوگ زیاده نہیں چونکے۔ کابل شہر کی معتبر مذہبی شخصیت مولانا ایاز نیازی بهی جذباتیت کی رو میں بہه گئے اور فوری طور پر ’گستاخ خاتون‘ کی ہلاکت کو درست ٹهہرانے لگے۔ مصر کی جامعه الازہر سے فارغ التحصيل مولانا نيازی کو ايک معتدل اور مدبر عالم کی حيثيت حاصل ہے اور وہ شہر کے پوش علاقے وزير اکبر خان کی مسجد کے امام بھی ہیں۔

فرخنده شاه دو شمیره سے متصل مقبرے پر تعویز گنڈے کرنے والوں کو اس کام سے روکنے کی خاطر گئی تهی اور انہی میں سے ایک نے فرخنده پر توہین قرآن کا الزام لگا دیاتصویر: DW/H. Sirat

لیکن جیسے جیسے بات کی حقیقت تصویری شکل میں سامنے آنے لگی اور یه عیاں ہو گیا که مذہبی علوم سے واقف فرخنده نے قرآن کی بے حرمتی نہیں کی تهی تو افغانستان بهر ميں اور بالخصوص دارالحکومت میں غم و غصه بپهر آیا۔ مولانا نیازی کو بهی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وه اتوار کو نماز جنازه میں شریک ہونے کے لیے بهی پہنچے لیکن ان کے ابتدائی رویے سے نالاں افراد نے انہیں جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور انہیں واپس لوٹنے کو کہہ دیا۔

فرخنده کی نماز جنازه کے بعد روایات کے برعکس افغان خواتین نے آگے بڑھ کر مقتوله کے جنازے کو کندھا دیا اور اسے آخری منزل تک پہنچا کر سپرد خاک کیا۔

پیر 23 مارچ کو ساتویں صدی کے صحابی سے منسوب شاه دو شمیره کے مزار کے پاس مظاہره کرنے والوں نے کابل حکومت سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرے میں شریک خواتین نے ’ہم سب فرخنده ہيں‘ کے عنوان کے تحت چہروں پر فرخنده کی تصاویر چسپاں کر رکهی تهیں۔ مظاہرے کے شرکاء نے مجرمین کو انصاف کے کٹہرے میں لا کهڑا کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین پولیس کی مذمت کر رہے تھے اور انتہا پسندی مخالف نعرے لگا رہے تهے۔

مظاہرین پولیس کی مذمت کر رہے تھے اور انتہا پسندی مخالف نعرے لگا رہے تهےتصویر: DW/H. Sirat

اس قسم کے مظاہروں کا سلسله آئنده چند روز تک جاری رہنے کی توقع کی جا رہی ہے، ہزاروں شہریوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے ان مظاہروں میں شرکت کی حامی بهر رکهی ہے۔

یه بات قابل ذکر ہے که وقوعے کی ویڈیوز سے یه بات ثابت ہوتی ہے که ہجوم کے ہاتهوں مرنے سے قبل خون میں لت پت فرخنده پولیس کی تحویل میں زنده سلامت تهی اور بعد ميں جائے ہلاکت پر بهی پولیس اہلکاروں کو کهڑے دیکها جا سکتا ہے۔ وزير داخله نورالحق علومی نے تسليم کيا ہے که پوليس والے فرخنده کو بچانے ميں ناکام رہے۔

فرخنده کے اہل خانه کا دعوٰی ہے که مقتوله دین کے علم سے واقف تهی اور وه شاه دو شمیره سے متصل مقبرے پر تعویز گنڈے کرنے والوں کو اس کام سے روکنے کی خاطر گئی تهی اور انہی میں سے ایک نے فرخنده پر توہین قرآن کا الزام لگا دیا۔

صدر محمد اشرف غنی کے حکم پر معاملے کی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔ ایک درجن سے زائد افراد کو تحویل میں لیا جا چکا ہے جبکه دس سے زائد پولیس افسران معطل کر دیے گئے ہیں۔ یاد رہے که قدامت پسند افغان معاشرے میں اسلامی قوانین کا اطلاق خاصے مؤثر انداز میں کیا جاتا ہے۔ گزشته برس چار افراد کو اجتماعی زیادتی کے جرم میں پهانسی دے دی گئی تهی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں