1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیافغانستان

ہرات کی مسجد میں بم دھماکہ، کم از کم اٹھارہ نمازی ہلاک

2 ستمبر 2022

ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم اٹھارہ نمازی ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں طالبان کے معروف مبلغ مجیب الرحمان انصاری بھی شامل ہیں۔ اس طرح ایک ماہ کے اندر اندر طالبان کے دو رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

Afghanistan Herat | Taliban sperren Straße nach Anschlag auf Moschee
ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم اٹھارہ نمازی ہلاک ہو گئے ہیںتصویر: AFP/Getty Images

افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، جس وقت دھماکہ ہوا، اس وقت مسجد نماز جمعہ کے لیے آنے والے افراد سے بھری ہوئی ہے۔ اس حملے میں کم از کم اکیس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ 

اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے مشہور مذہبی رہنما مجیب الرحمان انصاری  گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ نواز افغان حکومت پر تنقید کرتے آ رہے تھے اور افغانستان بھر میں ان کی وجہ شہرت بھی یہی تھی۔ یہ دھماکہ ہرات کی گزرگاہ مسجد میں ہوا۔

 مجیب الرحمان انصاری کو طالبان کا انتہائی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا تھا جبکہ طالبان کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے بھی مجیب الرحمان انصاری کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

چند ہفتے قبل کابل میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کے دوران انصاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ''ہماری اسلامی حکومت کے خلاف چھوٹی سی حرکت‘‘ کرنے والوں کا بھی سر قلم کر دینا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ (طالبان کا) پرچم آسانی سے سربُلند نہیں ہوا اور اسے آسانی سے سرنگوں بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘

ایک ماہ کے بھی کم عرصے میں انصاری ہلاک ہونے والے دوسرے طالبان عالم ہیں۔ قبل ازیںرحیم اللہ حقانی کو کابل میں ان کے مدرسے میں ہی ایک خودکش حملے کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

 حقانی بھی داعش کے خلاف متعدد تقاریر کر چکے تھے اور وہ انہوں نے لڑکیوں کی سکینڈری سکول کی تعلیم کے حق میں بھی بیانات دیے تھے۔ بعد ازاں داعش نے ان کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔

طالبان روس سے پیٹرول کی خریداری کے معاہدے سے قریب تر

 تاہم ابھی تک کسی بھی تنظیم یا گروہ نے آج کے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ماضی میں مساجد پر ایسے بم حملوں کی ذمہ داری 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے شدت پسند قبول کرتے آئے ہیں۔ داعش نے افغانستان میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف بھی سلسلہ وار حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

طالبان حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ داعش کو افغانستان میں شکست دی جا چکی ہے جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کی داعش مستقبل میں بھی طالبان کے لیے مسائل کھڑی کرتے رہے گی اور طالبان کے لیے اس سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

ا ا / ع ا ( روئٹرز، ڈی پی اے) 

طالبان کے اقتدار کا ایک سال، بچیوں پر کیسا بیتا؟

04:03

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں