شورش زدہ علاقے ہرنائی میں واقع کوئلے کی کانوں پر عسکریت پسندوں کے تازہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم چار کان کن ہلاک جبکہ تین کو زخمی ہو گئے ہیں۔ حملہ آوروں نے فرار ہوتے وقت متعدد کانوں کی مشینری کو نذر آتش بھی کر دیا۔
اشتہار
عسکریت پسندوں کےحملے کے نتیجے میں ہرنائی میں ہلاک ہونے والے مزدوروں میں سے دو کا تعلق خیبر پختونخوا جبکہ دو کا بلوچستان کے علاقے مسلم باغ سے بتایا گیا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ ماضی میں ہرنائی اور ملحقہ علاقوں میں ہونے والے اکثر حملو ں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار شعیب احمد کہتے ہیں کہ ضلع ہرنائی میں عسکریت پسندوں نے کوئلے کی کانوں پر حملہ اس وقت کیا، جب وہاں معمول کے مطابق کام نہیں ہو رہا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے احمد نے کہا، "جس علاقے میں یہ حملے ہوئے ہیں وہ ہرنائی شہر سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حملہ آوروں نے پہلے مزدوروں پر فائرنگ کی پھر ساتھ ہی واقع کوئلہ کانوں کی مشینری کو اگ لگا کر وہاں سے پہاڑوں کی جانب فرار ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی ملزم کی گرفتاری ممکن نہیں ہوئی ہے۔"
شعیب احمد نے بتایا کہ کوئلے کی کانوں پر حملوں کے بعد سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کردیے گئے ہیں اور حساس مقامات پر فورسز کی اضافی نفری بھی تعینات کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہرنائی انتظامیہ مقامی قبائلی عمائدین کے ساتھ رابطے میں ہے۔ مائن ورکرز کی سکیورٹی ہم سب کے لیے بہت اہم ہے۔ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کے مطالبات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ کوئلہ کانوں کے مالکان بھی ورکرز کے اوقات کار اور سکیورٹی کے حوالے سے ایک پلان مرتب کیا جائے۔‘‘
ہرنائی میں کوئلہ کے وسیع ذخائر میں بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی کام کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں کوئلہ کانوں کے مزدور بھی کئی بار اغوا ہو چکے ہیں۔
اشتہار
بلوچستان میں مائن ورکرز کے سکیورٹی خدشات
عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد ہرنائی اور ملحقہ علاقوں میں اکثر کوئلہ کانوں کو احتجاجی طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی مقامی قبائل بھی سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین نے سوال کیا ہے کہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود عسکریت پسند کس طرح آسانی سے علاقے میں داخل اور فرار ہوجاتے ہیں؟
مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے لگائے اور امن وامان کی ابتر صورتحال پر مقامی انتظامیہ کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
12 تصاویر1 | 12
پینتالیس سالہ سید ولی بھی ہرنائی میں کان کن ہیں۔ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد انہیں بھی اپنے روزگار اور سکیورٹی کے حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ولی نے کہا، ''یہاں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ کانوں کے مالکان اور حکومت نے کان کنوں کی جانوں کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ اگر موثر حفاظتی انتظامات ہوتے تو شاید اس نوعیت کے واقعات پیش ہی نہ آتے۔ جس وقت یہ حملہ کیا گیا، ہم اپنے ڈیرے میں موجود تھے۔ شدید فائرنگ کی آوازیں حملے کے بعد بھی کافی دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ یہاں ضرورت کے مطابق کسی کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ہے۔‘‘
ولی کے بقول، ''ہزاروں فٹ کی گہرائی میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی جانوں کو بہت خطرات لاحق ہیں۔ ہم نے کئی بار سکیورٹی خدشات سے مائن مالکان کو آگاہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مقامی انتظامیہ سے بات کی ہے۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ ہمارے لیے کام کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو عسکریت پسند کئی بار کام چھوڑنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ بخت محمد گزشتہ 15 سالوں سے ہرنائی میں واقع ایک کان میں کام کر رہے ہیں اور کان کنوں کی مقامی نمائندہ تنظیم سے بھی وابستہ ہیں۔ بخت محمد کہتے ہیں کہ مزدوروں کی جانوں کو لاحق خطرات دور کرنے پر حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد نے کہا، ''حکومتی ادارے یہاں ہمیشہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں، جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی جارہی ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا، ''کوئلہ کانوں کی سکیورٹی پر خطیر رقم خرچ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن یہاں حفاظتی انتظامات کا یہ عالم ہے کہ کوئی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔ہمارے مزدور آئے روز قتل اور اغواء ہو رہے ہیں۔ انہیں انصاف کون دے گا؟"
بخت محمد کے بقول کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے سکیورٹی خدشات دور نہ کیے گئے تو صوبے کے دیگر حصوں میں واقع کوئلے کی کانوں بھی غیر معینہ مدت تک کام بند کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور ان کے مزدور
کان کنی کو 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم بدلتے وقت اور اس پیشے سے منسلک خطرات کے سبب بین الاقوامی سطح پر اس جانب سے توجہ منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان میں اب بھی کئی مقامات پر کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے دور
بلوچستان کے علاقے سورن رینج میں کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے والے سینکڑوں مزدوروں میں سے ایک بخت زمین کا تعلق سوات سے ہے۔ وہ چھ افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے اور انہی پہاڑوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے میلوں دور زندگی بسر کرتا ہے
تصویر: DW/S. Khan
کان کنی اور تعلیم ساتھ ساتھ
فضل کریم ایک نوجوان کان کن ہے، سخت حالات میں وہ دن کے اوقات میں اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور رات میں کان میں کام کرتا ہے، مائیکرو بائیالوجی کا یہ طالب علم یہاں کے کان کنوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی
کان کنوں کی اس آبادی میں ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی رہ رہے ہیں۔ صالحہ اور صنم دو بہنیں ہیں اور یہاں اسکول یا مدرسہ نہ ہونے کے سبب خاصی اداس رہتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
غلیل سے چڑیا کا شکار
بلوچستان کے ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کان کنوں کے بچے دل بہلانے کے لیے مختلف کھیل کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ یہ بچے غلیل سے چڑیا کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ایک عمر بیت گئی
67 سالہ عبد الخالق گزشتہ قریب چار عشروں سے یہاں مزدوری کر رہے ہیں۔ سانس کی تکلیف میں مبتلا عبدالخالق کا اب دنیا میں کوئی نہیں رہا اور ان کے شب و روز یہیں گزارتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
کان کنوں کی جانوں کو دوسرا خطرہ
ایک مزدور کان سے نکلنے والے فضلے کو پہاڑی ڈھلان سے نیچے پھینک رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کے سبب اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم کان کن رہ گئے ہیں اور ان کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلی گئی ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
زندگی اور موت کوئلے کی کانوں کے پاس
عشروں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں کان کنی کرنے والے مزدور موت کے بعد بھی کمزور اقتصادی حالات کے سبب اپنے آبائی علاقوں میں نہیں لے جائے جاتے اور یہی دفنا دیے جاتے ہیں۔